پہلے ہر مسلمان معاشرے کی لڑکی یہ سمجھتی تھی کہ اس کا اصلی میدانِ عمل گھر ہے۔ اس وجہ سے اس کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ وہ اپنے اندر سگھڑ پن اور سلیقہ پیدا کرنے کی کوشش کرے جو اس کو اس کی گھر گرہستی کی ذمہ داریوں کے لائق بنائے ،اور وہ علم و ہنر سیکھے جو ایک سلیقہ شعار بیوی اور ایک لائق ماں کے فرائض انجام دینے میں اس کے کام آسکے۔ لیکن اب اسے تربیت اس بات کے لئے دی جارہی ہے کہ وہ باہر سے آنے والے معزز مہمانوں کے دل کس طرح بہلا سکے۔ کس طرح اپنے جسمانی کرتبوں کی نمائش کرے اور کس طرح اپنی بے باکیوں سے لاکھوں مشتاقوں کے دل موہ لے۔ اب تک ہر شریف باپ کی شریف بیٹی اپنے لئے اس با ت کو کمالِ شرافت سمجھتی تھی کہ جب تک باپ کے گھر میں رہے ، باپ بھائی کی کمائی پر فراخی یا تنگی کی جیسی زندگی بھی میسر آئے، صبر و شکر کے ساتھ گزارے اور جب شوہر کے گھر میں جائے تو اس کی کمائی پر زندگی بسر کرنے کو اپنے لئے سرمایۂ فخر سمجھے اور قناعت و فرض شناسی کے ساتھ اپنی قابلیتیں ان خدمات کے ادا کرنے میں صرف کرے جو گھر اور خاندان سے متعلق ہیں، لیکن اب یہی لڑکی سبق لینے لگی کہ لعنت ہے اس زندگی پر جو باپ کے بخشے ہوئے ٹکڑوں اور شوہر کے دستر خوانوں کے ریزوں پر بسر ہوئی۔ تو خود گھر سے نکل کر جدوجہد کر شکار مار۔ خو دبھی کھا اور دوسروں کو بھی کھلا !! اب تک ہر لڑکی سینے پرونے، پکانے،ریندھنے بھائیوں اور بہنوں کو سنبھالنے اور ماں باپ کی خدمت کو اپنے لئے اعزاز سمجھتی تھی۔ شوہر اور بچوں کی خدمت کو اپنے لئے فخر قرار دیتی تھی۔ اب یہ غلامی اور محتاجی عورت کے ذوق پر پوری نہ اُتری اور اس نے اپنے ذاتی تشخص اور ذاتی شناخت کا مطالبہ کردیا۔ اور اپنے لئے فن اور ہنر کا میدان اس کے علاوہ مانگا اور مفت کی ان خدمات کاانکار کردیا۔ اب تک عفت و عصمت کو ہر بہن بیٹی اپنی سب سے بڑی دولت سمجھتی رہی ہے۔ اور اپنے ناموس کی حفاظت پر اپنی جانیں دیتی آئی ہے، لیکن اب اسے آزاد فکر نے یہ درس دیا کہ جنسی لذت اور اس کا حصول کوئی برائی نہیں۔ بازارِ حسن محض ایک آرٹ اور پیشہ ہیں جو اپنے معاشرے کی ثقافت کے فروغ کی ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔ بری چیز اگر کوئی ہے تو وہ عصمت فروشی نہیں، فرسودہ طریقے ہیں جو بدنامی کا موجب ہیں۔ اب تک عورت کے لئے یہ کمال سمجھا جاتا تھا کہ وہ ایک مرد کی ہوکر رہے اور اس کی اطاعت و وفاداری، اس کے گھر کی دیکھ بھال، اس کے بچوں کی تربیت اور نگہداشت میں اپنی پوری زندگی بسر کردے، لیکن اب اس کے کانوں میں یہ فسوں پھونکا جانے لگا کہ صرف ایک شوہر تلاش کرلینا اور اس کی اطاعت و وفاداری میں زندگی بسر کردینا کوئی کمال نہیں۔ کمال یہ ہے کہ عورت تعمیر ملت کے وسیع کاموں میں حصہ لے اور خدمت ِوطن کے وسیع میدان میں اپنی جولانیاں دکھائے۔آج کل کے دور میں آبادی پر زور نہیں بلکہ ’کوالٹی آف لائف ‘پر زور دیا گیا ہے۔ آج کل عورت اپنی ’کوالٹی آف لائف‘ بہتر کرنے کے لئے زیادہ بچے پیدا کرنے کی حامی نہیں، وہ اپنے خاندان کی ’کوالٹی آف لائف‘ زیادہ بہتر کرنے کے لئے معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی حامی ہے۔ |