مغربی تہذیبی ترقی کو بھی غیر مطلوب سمجھ لیا۔ انگریز سے متنفر ہوتے ہوئے وہ انگریزی سے بھی متنفر ہوئے۔ سرسید احمد خان رحمہ اللہ (متوفیٰ 1898ء) کا شمار برصغیر پاک و ہند کے ان علماء میں ہوتا ہے جنہوں نے مغربی تہذیب کو خوش آمدید کہا اور اسے مشرقی تہذیب کے حق میں ایک معاون واقعہ قرار دیا۔ اُن کا خیال تھا کہ اس سے مشرقی دنیا کے لئے نئے اِمکانات کی دنیا وسیع ہوگی۔ اگرچہ اُنہوں نے اس انقلاب میں بہت سے منفی پہلو بھی پائے، لیکن ان کا خیال تھا کہ اس انقلاب کا مؤید ِاسلام ہونا مشتبہ نہیں ہے۔ اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ مغربی تہذیب نے مسیحی مذہب کے خلاف ردّعمل میں آزادی کے تصور کو اتنا بڑھایا کہ آزادی کو خیرمطلق (Summum bonum)کا درجہ دے دیا۔ انسانی آزادی کے نام پر مذہبی قدروں کی وسیع پیمانہ پر پامالی شروع ہوگئی۔ اس کی آخری حدود مجرمانہ عریانیت (Criminal Pornography) ہے جو اب شرمناک حد تک غیر انسانی صورت اختیار کرچکی ہے۔ [1] تاہم ان تمام منفی پہلوؤں کے باوجود مسلمان دانشوروں میں سے بعض نے اسے خوش کن تبدیلی سمجھا لیکن اکثر مسلمان منفی پہلوؤں اور مثبت پہلوؤں کے میزان میں کوئی واضح رائے قائم نہ کرپائے۔ مسلمانوں کے مذہبی طبقے کی نگاہ سیاسی اور تہذیبی مغلوبیت کی بنا پر، تنقید پر مبنی تھی۔ لیکن جن مسلمانوں کی نگاہ میں اس کے مثبت پہلو زیادہ خوش آئند تھے، ان کا نقطہ نظر مغربی استعمار کی شدت کے ساتھ ساتھ تقویت پاتا گیا۔ اس سیاق و سباق میں عورتوں کے مسئلے اور قوم پرستی اور ثقافت کے مسائل کے درمیان تعلقات استوار ہوئے۔ ابتدائی طور پر یہ تعلقات مغرب کی معاشی اور ثقافتی یلغار کے پس منظر میں اور بعد میں شدید قوت کے ساتھ، اس کے سیاسی اور فکری غلبے کے پس منظر میں استوار ہوئے۔ یہی ثقافتی اور فکری غلبہ نوع بہ نوع طبقاتی اور ثقافتی کشمکش کا سبب بنا۔ عورتوں سے متعلق بحث ایک ایسا واسطہ بن گئی کہ جس کے ذریعے دوسرے اہم اختلافی معاملات زیر غور آئے۔ اسی مرحلے پر پردے سے متعلق بحث نہایت اہمیت اختیار کرگئی، کیونکہ اس سے نہ صرف صنفی تفریق کے سماجی مفہوم بلکہ نہایت دور رَس سیاسی اور ثقافتی اہمیت کے حامل معاملات کا اظہار بھی ہوتا تھا۔ تب سے ہی یہ بحث خاصی اہمیت اور معنویت کی حامل رہی ہے۔ عورتوں کے مسئلے کا طبقے، ثقافت اور سیاسیات کے مسائل کے ساتھ منسلک ہونا اور عورتوں اور پردے کے مسئلے کا ان دوسرے مسائل کے ساتھ وابستہ ہونا عورتوں کے لئے بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ عورتوں کے حقوق اور ان کے مقام میں بہتری یا تبدیلی بلا واسطہ طور پر اس بات پر منحصر ہے کہ سیاسی اقتدار پر حاوی مرد، قوم پرستی اور ثقافت کی بحث میں کس جانب جھکاؤ رکھتے ہیں۔ اسی لئے اُنیسویں صدی کے آخر تک طبقاتی اور ثقافتی تضادات کے ساتھ ساتھ جنسی تفریق کی بحث نے زور پکڑا۔ اُنیسویں صدی میں مغربی معاشی یلغار اور غلبہ،مشرقِ وسطیٰ کے معاشروں میں پیدا ہونے والے مختلف |