Maktaba Wahhabi

107 - 117
۲۔ مختلف بیماریوں کے علاج کے لئے مطلوبہ ادویات تیار کرنا۔ ۳۔ انسولین کا انسانی جین بکٹیریم کے اندر ڈال کر انسولین حاصل کرنا۔ ۴۔ جینیاتی انجینئرنگ کی مدد سے طب و زراعت کے علاوہ صنعتی میدان میں بے شمار فوائد کے حصول کے لیے اس کا استعمال۔ ۵۔ ماحولیاتی آلودگی کو صاف کرنے کے لئے جینیاتی طریقہ سے تیار شدہ بکٹیریا سے استفادہ۔ اس عمل کو (Biaremediation) کہا جاتا ہے۔ حیوانی کلوننگ کی ترقی یافتہ شکل اس سے مراد حیوانی کلوننگ کی وہ شکل ہے جس میں دو حیوانوں کے غیر جنسی خلیے مصنوعی طریقہ سے حاصل کر کے ملائے جاتے ہیں۔ پھر بار آور ہونے کے بعد اسے مادہ حیوان کے رحم میں رکھ دیا جاتا ہے ۔ جہاں سے ارتقائی مراحل کے بعد مکمل شکل کا حیوانی بچہ پیدا ہو جاتا ہے ۔ پہلے یہ طریقہ مینڈکوں اور چوہوں پر کیا جاتا رہا اور اب یہ گائے اور بھیڑ بکریوں میں کیا جا رہا ہے۔ سب سے پہلے 22 فروری 1997 کو روز لن انسٹیٹیوٹ ، ایڈبزا (سکاٹ لینڈ) کے 52 سالہ ڈاکٹر آئن ولمٹ (Dr. Ian Wilmut) اور ڈاکٹر کیتھ کمیبل (Dr. Keith Camqbell) کی زیر قیادت سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ڈولیب (Dolly) نامی بھیڑ کی ایک ہو بہو نقل بنا کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ [1] ایک چھ سالہ مادہ بھیڑ کے پستانیہ (Udder) سے خلیے الگ کیے گئے۔ یہ خلیے غیر جنسی تھے، ان کو تجربہ گاہ کے اندر اس طرح کلچر کیا گیا کہ یہ خوراک سے محروم رکھے گئے تاکہ خلیے تقسیم نہ ہو سکیں، اس مقصد کے لیے مخصوص خوراک اور درجہ حرارت کا اہتمام کیا گیا۔ ان تمام موافق حالات میں خلیوں نے اپنی تعداد میں ’’مائی ٹوسس‘‘ کے عمل تقسیم، کے ذریعے اضافہ شروع کر دیا۔ یعنی ’’مائی ٹوسس ‘‘ کا عمل شروع ہو گیا۔ یہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ مائی ٹوسس کے عمل کے دوران دودھ کے غدود کے خلیوں میں تمام’’ کروموسوم ‘‘ موجود ہیں، جن کی تعداد اتنی ہے جتنی کہ بھیڑ کے جسم کے کسی اور حصے میں ہو گی۔ ( ماسوائے مادہ میں انڈو ں اور نر میں سپرم کے)۔ جب کافی تعداد (یا مقدار ) میں خلیے تیار ہو گئے تو ان کی خوراک میں 20 گنا کمی کر دی گئی۔ خوراک کی کمی کی صورت میں تمام جینز جو پہلے خاموش یا عارضی طور پر ناکارہ ہو گئے، دوبارہ کار آمد ہو گئے۔ اس کے بعد دوسری بھیڑ کے انڈے میں سے مرکزہ نکال لیا گیا۔ اب اس انڈے ( جس میں سے مرکزہ نکالا جا چکا ہے) کو پہلی بھیڑ کے دودھ کے غدود کے کلچر کئے ہوئے
Flag Counter