سامنےبیٹھ گئے اور اسے اسلام کی دعوت دیتے ہوئے کہا: اگر دن کو تجھے عار نے اسلام لانے سے روکا تھا تو اب اس وقت میری دعوت کو قبول کرلے اور خاموش رہ۔ابولہب نےکہا: میں اس وقت تک تجھ پر ایمان نہ لاؤں گا جب تک یہ جدی (بکری کا بچہ) تجھ پر ایمان نہ لے آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جدی (بکری کا بچہ) سے پوچھا: میں کون ہوں؟ اس نےکہا: اللہ کے رسول! نیز اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرنا شروع کردی۔جس پر ابولہب پر حسد غالب آگیا، اس نے جدی کا ہاتھ پکڑا اور اسے زور سے مروڑا اوركہا: ’’تبّا لك أثر فیك السّحر‘‘ تو جدی (بکری کے بچہ) نے بھی آگے سے کہا: ’’بل تبّا لك‘‘ چنانچہ اسی کے موافق یہ سورۃ نازل ہوئی۔‘‘ [1] تفسیر رازی میں اگرچہ قصّہ مختلف ہے مگر اس میں بھی ابولہب کی مذمت او راس کے خلاف بددعا کا ہی تذکرہ ہے۔ امام ابن عطیہ رحمہ اللہ (متوفی 542ھ) اس سورت کی تفسیر میں نقل کرتے ہیں: ’’حدیث مبارکہ میں مروی ہے کہ جب سورۃ شعراء کی یہ آیت مبارکہ ﴿ وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ﴾[2] نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یَا صَفِيَّةُ بِنْتُ عَبْدِ الْـمُطَّلِبِ، يَا فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ! لَا أَمْلِكُ لَكُمَا مِنَ اللّٰه شَيْئًا، سَلَانِي مِن مَالِي مَا شِئْتُمَا ))کہ ا ےصفیہ بنت عبدالمطلب، اے فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اللہ تعالیٰ سے تمہارے بارےمیں کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں رکھتا البتہ تم دونوں مجھ سے میرے مال میں سے جو چاہتی ہو مانگ لو۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور خواص قریش کو پکارا: ((یَا بَنِی فُلَان، یَا بَنِی فُلَان ))کہ اے بنو فلاں!اے بنو فلاں! ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے "یا صباحاه" کہا، ہرطرف سے لوگ آپ کے پاس جمع ہوگئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ((أَرَأَیْتُمْ لَوْ قُلْتُ لَکُمْ إِنِّي أُنْذِرُكُمْ خَيْلًا بِسَفْحِ هٰذَا الْجَبَلِ أَکُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟ ))کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے دامن میں موجود لشکر سے ڈر جاؤ، تو کیا تم میری تصدیق کرنےوالے ہو۔ انہوں نے کہا: ہاں! تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں آخرت کے شدید عذاب سے ڈراتا ہوں۔ یہ سن کر ابولہب بولا: ’’تبّالك سائر الیوم ألهذا جمعتنا‘‘ جب لوگ آ پ کے پاس سے متفرق ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ نازل فرما دی۔‘‘ [3] مذکورہ بالا تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت ابولہب اور اس کی بیوی کی مذمت میں نازل ہوئی ہے۔ اس میں ابولہب کی سخت کلامی کاجواب ہے او راس کے خلاف بد دُعا ہے، مفسرین میں سے کسی نے بھی اس سورت کو فتح مکہ کی بشارت قرار نہیں دیا۔اس سورت کو فتح مکہ کی بشارت قرار دینا صرف مولانا فراہی رحمہ اللہ کی انفرادیت |