کے خلاف بددعا ہے۔ امام بغوی رحمہ اللہ (متوفی 516ھ)اس سورت کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں: ’’سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھے اور یا صباحاه (عرب یہ کلمہ خطرہ کے وقت پکارتے تھے تاکہ سب لوگ متنبہ ہوجائیں) کہا۔ چنانچہ قریش والے آپ کے پاس جمع ہوگئے۔ انہوں نے آپ سے پوچھا:کیا معاملہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ((أَرَأَیْتَکُمْ إِنْ أَخْبَرْتُکُمْ أَنَّ الْعَدُوَّ مُصْبِحُکُمْ أَوْ مُمسِیکُمْ أَمَا کُنْتُمْ تُصَدِّقُونَنِی))کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں خبر دوں کہ دشمن صبح یا شام کے وقت حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا ماننے والے ہو۔ انہوں نے کہا :کیوں نہیں! تب آپ نے فرمایا: میں تمہیں آخرت کے شدید عذاب سے ڈرانے والا ہوں۔ یہ سن کر ابولہب بولا: ’’ تبّا لك ألهذا جمعتنا.‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں یہ سورت ﴿ تَبَّتْ يَدَا اَبِيْ لَهَبٍ وَّ تَبَّ﴾ نازل فرما دی۔‘‘ [1] اس سے معلوم ہوا کہ امام بغوی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ سورت ابولہب کے خلاف بددعا اور اس کی سخت کلامی کا جواب ہے۔ اسی طرح علامہ جار اللہ زمخشری رحمہ اللہ ( متوفیٰ 538ھ) اس سورت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں: ’’التباب‘‘ کا معنیٰ ہلاکت ہے، یعنی وہ ہلاک ہوگیا۔[2] جب سورۃ شعراء کی آیت مبارکہ﴿ وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ﴾[3]نازل ہوئی کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پہاڑی پر چڑھ کر (یا صباحاه) کی آواز لگائی۔ جب ہرطرف سے لوگ آپ کے پاس جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یَا بَنِي عَبْدِ الْـمُطَّلِبِ، یَا بَنِي فِهْر! إنْ أَخْبَرْتُکُمْ أَنَّ بِسَفْحِ هٰذَا الْجَبَلِ خَیْلًا أَکُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ ؟ ))’’ اے بنو عبدالمطلب، اےبنو فہر، اگر میں تمہیں خبر دوں کہ اس پہاڑ کے دامن میں ایک لشکر (چھپا ہوا) ہے تو کیا تم میری تصدیق کرنے والے ہو، انہوں نے کہا: ہاں: تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں قیامت سے ڈرانے والا ہوں۔ یہ سن کر ابولہب بولا: ’’تبّا لك ألهذا دعوتنا. ‘‘ چنانچہ ابولہب کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی۔‘‘ [4] امام رازی رحمہ اللہ (متوفیٰ 606ھ) اس سورت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے وقت ابولہب کو اسلام کی دعوت دی، مگر اس نے انکار کردیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا نوح کی سنت پر عمل کرتے ہوئے رات کو دوبارہ ابولہب کے گھر گئے۔ جب آپ اس کے گھر میں داخل ہوئے تو اس نے کہا: کیا آپ معذرت کرنے آئے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم محتاج کی مانند اس کے |