Maktaba Wahhabi

86 - 126
ہوسکتا ہے،ورنہ پورا سلسلہ نظم درہم برہم ہوجائے گا۔ چنانچہ غوروفکر سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سورہ نصر میں جس فتح و غلبہ کاذکر ہے، سورہ لہب میں اسی فتح و غلبہ کی وضاحت اور بشارت ہے۔ گویا یوں فرمایا گیا ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کو غلبہ دیا اور اس کے دشمن کو برباد کیا، جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے:﴿ وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا﴾[1] ’’ کہہ دیجئے حق نمودار ہوا او رباطل مٹ گیا بلاشبہ باطل مٹنے ہی کی چیز ہے۔‘‘اس قسم کے نظم کی نہایت لطیف مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خطبہ میں بھی ہے جو آپ نے فتح مکہ کے موقع پر کعبہ کے دروازے پر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((لَا إله إِلَّا اللّٰه وَحْدَهُ صَدَقَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَه وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ)) [2]’’ خدائے واحد کے سوا کوئی معبود نہیں، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندہ کی مدد فرمائی او ریکتا و تنہا دشمنوں کی جماعتوں کو شکست دی۔‘‘ بظاہر یہ تین الگ الگ فقرے ہیں، لیکن ایک صاحب نظر کے لئے ان تینوں جملوں کے اندر علی الترتیب تین سورتوں کے مضامین پنہاں ہیں، پہلا فقرہ ((لَا إله إِلَّا اللّٰه وَحْدَهُ ))سورہ کافرون کا ہم مضمون ہے۔ دوسرا جملہ ((صَدَقَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَه ))سورہ نصر کے ہم معنی ہے، تیسرا جملہ ((وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ ))اور سورہ لہب ایک ہی حقیقت کی دو تعبیریں ہیں۔ پس جس طرح یہ تینوں فقرے ایک صاحب نظر کے لئے بالکل مربوط و منظم ہیں، اسی طرح جو لوگ ان تمام سورتوں کے مضامین پر غور کریں گے وہ ان سب کو ایک ہی زنجیر کی بالکل مربوط کڑیوں کی شکل میں پائیں گے۔‘‘ [3] جمہور مفسرین کا ردّ کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں : ’’عام خیال یہ ہے کہ ابولہب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرکے کہا تھا: "تبّا لك ألهذا دعوتنا؟" کہ تم ہلاک ہو، تم نے ہم کو اسی لئے بلایا ہے،اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ابولہب او راس کی بیوی کی مذمت میں یہ سورت نازل فرما دی تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ابولہب کی گستاخی سے جو رنج پہنچا تھا وہ رفع ہوجائے، لیکن صحیح تأویل روشن ہوجانے کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس رائے کو قبول کریں۔‘‘ [4] مزید لکھتے ہیں : ’’اب ایک قدم اور آگےبڑھ کر ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ سورۃ اوائل بعثت میں نہیں اتری ہے۔ جو لوگ اس دلیل کی بناء پر کہ یہ ابولہب کی سخت کلامی کا جواب ہے۔ اس کا زمانہ نزول ابتدائے بعثت بتلاتے ہیں ہمارے نزدیک ان کا خیال بالکل غلط ہے۔ یہ سورۃ ابولہب کے جواب میں نہیں بلکہ ایک ہونے والے واقعہ کی پیشین گوئی اور
Flag Counter