کے درمیان ایک معنوی ربط اور مناسبت قائم کردیتے ہیں، جس کو وہ سورت کامرکزی مضمون یا عمود سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کی اس انداز میں کی گئی تفسیر قرآن فہمی کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور علم تفسیر میں بحث و نظر کے نئے دروازے کھلتے ہیں۔مگر مولانانے بعض مقامات پر ان اصولوں کی بنیاد پر ایسی تفسیر کر ڈالی ہے جو جمہور مفسرین کے مطابق منشائے متکلم سے ہٹ کر اور منفرد ہے۔ذیل میں چند مثالیں ذکر کرتے ہیں، جن میں مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ نے منفرد تفسیر کی ہے۔ سورة اللّهب کی تفسیر مولانا فراہی رحمہ اللہ سورة اللّہب کو ابولہب کے خلاف بددعا نہیں بلکہ فتح مکہ کی بشارت قرار دیتے ہیں جبکہ جمہور مفسرین کے نزدیک یہ ابولہب کے قول: "تبّا لك یا محمّد" کے جواب میں نازل ہوئی ہے۔ابو لہب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بددعا دی تھی تو اللہ تعالیٰ نے انہی کلمات کے ساتھ وہ بددعا ابولہب پر بطور عتاب نازل فرما دی۔ مؤقف فراہی رحمہ اللہ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے سورة اللّہب کو ابولہب کے خلاف بددعا نہیں بلکہ فتح مکہ کی بشارت قرا ردیا ہے۔ انہوں نے یہ رائے نظمِ قرآن کے اصول پرقائم کی ہے اور اپنی کتاب ’مجموعہ تفاسیر فراہی‘ میں ماقبل و مابعد سورتوں کا نظم بیان کرتےہوئے لکھتے ہیں: ’’ کہ خداوند تعالیٰ نے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت فتح مکہ پر تمام کی، اسی طرح آپ کے صحیفہ نبوت کو اس فتح عظیم کےذکر پر ختم کیا۔ یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ حق اپنے مرکز پرپہنچ گیا کیونکہ کعبہ کے مرکز توحید و اسلام ہونے کی وجہ سے (جیساکہ تفسیر سورہ بقرہ میں ہے ) فتح مکہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مرکز تھی۔ اس کے بعد صرف اثبات اور استقامت کی ضرورت تھی، اس کے لئے تین سورتیں اس کے بعد لگا دی گئیں، سورہ اخلاص، جو تمام معارف توحید کا خزانہ ہے، یہ واضح کرنے کے لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غایت توحید ہے اور دونوں معوذتین دعائے استقامت کی تلقین کے لئے ۔ اس ربط کی ایک لطیف مثال اس آیت میں بھی ہے:﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ﴾[1] ’’ جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر جمے رہے، ان پر ملائکہ یہ بشارت لے کر اترتے ہیں کہ نہ خوف کرو نہ غم اور تمہارے لئے اس بہشت کی خوشخبری ہے جس کا وعدہ کئے جاتے رہے ہو۔‘‘ اس تمہید سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ تمام سورتیں (سورہ نصر، سورہ اخلاص اور معوذتین) باہم مربوط ہیں۔ اس وجہ سے سورہ لہب کا ان کے درمیان رکھا جانا کسی خاص سبب و حکمت ہی پر مبنی |