Maktaba Wahhabi

52 - 126
اعتراض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس اِستدراک کی وجہ سے بعض لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ انہوں نے دیگر صحابہ کی بیان کردہ حدیث کو قرآن کریم کی آیت کے خلاف ہونے کی وجہ سے رد کردیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی حدیث کا متن قرآن کریم کے صریح خلاف آرہا ہو تو اس روایت کی سند دیکھنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں رہتی بلکہ محض خلاف قرآن ہونے ہی کی وجہ سے وہ رد کیے جانے کے قابل ہے، کیونکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے راوی ِحدیث پر کوئی بحث نہیں کی اور ان پر بحث ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ صحابہ تمام کے تمام عادل ہیں۔ لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ تحقیق حدیث میں اصولِ درایت کا استعمال ایک مسلمہ امر ہے۔ جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مقابلہ میں پیش کرنے والوں کے پیش نظر اگریہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ قلیبِ بدر کے مقتولین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب سنتے نہیں تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ان کے سننے کا اثبات ہوتا ہے جس کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے نفی ہوتی ہے، تو یہ بات درست نہیں کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں بھی ایسے الفاظ موجود ہیں جن سے اہل قلیب کا سماع ثابت ہے۔ الفاظ حدیث ملاحظہ ہوں: عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَمَرَ رَسُولُ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم بِالْقَتْلَى أَنْ يُطْرَحُوا فِي الْقَلِيبِ، فَطُرِحُوا فِيهِ، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ، فَإِنَّهُ انْتَفَخَ فِي دِرْعِهِ فَمَلَأَهَا، فَذَهَبُوا لِيُحَرِّكُوهُ، فَتَزَايَلَ، فَأَقَرُّوهُ وَأَلْقَوْا عَلَيْهِ مَا غَيَّبَهُ مِنَ التُّرَابِ وَالْحِجَارَةِ، فَلَمَّا أَلْقَاهُمْ فِي الْقَلِيبِ، وَقَفَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ، فَقَالَ: «يَا أَهْلَ الْقَلِيبِ، هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمْ رَبُّكُمْ حَقًّا؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا))قَالَ: فَقَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ: يَا رَسُولَ اللّٰه، أَتُكَلِّمُ قَوْمًا مَوْتَى؟: فَقَالَ لَهُمْ((لَقَدْ عَلِمُوا أَنَّ مَا وَعَدْتُهُمْ حَقٌّ))قَالَتْ عَائِشَةُ: وَالنَّاسُ يَقُولُونَ: ’’ لَقَدْ سَمِعُوا مَا قُلْتَ لَهُمْ ‘‘ وَإِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : ((لَقَدْ عَلِمُوا )) ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے کافر مقتولوں کو قلیب بدر (بدر کے ایک کنویں) میں پھینکنے کا حکم صادر فرمایا: لہٰذا ان سب کو کنویں میں پھینک دیا گیا، لیکن امیہ بن خلف کی لاش چونکہ اپنی زرہ میں پھول چکی تھی اس کو اٹھا کر پھینکنے لگے تو اعضاء منتشر ہوگئے، تو اسے وہیں چھوڑ کر اوپر مٹی اور پتھر ڈال کر اسے چھپا دیا گیا، ان کافروں کی لاشوں کو کنویں میں ڈال کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کنویں پرکھڑے ہوگئے اور کہا، اے کنویں والو! تم سے اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا تھا وہ تم نے سچ پایا ہے یا نہیں؟ مجھ سے تو اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا تھا وہ سچ ہوچکا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے گذارش کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مرنے والوں سے گفتگو کررہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جان گئے ہیں کہ میں نے انہیں سچا وعدہ دیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں دوسرے لوگ تو یہاں ’’سمعوا ‘‘ کا لفظ روایت کرتے ہیں کہ میں نے ان سے جو کہا ہے انہوں نے سن لیا ہے۔
Flag Counter