Maktaba Wahhabi

51 - 126
جن کی وجہ سے اس غیر منطقی اور غیر عقلی قبول ِحدیث کے معیارِ درایت کی نسبت حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف کی جارہی ہے۔ استدراکاتِ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالہ سے چندامثلہ اور ان کا جائزہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان کے ہاں قبول ِروایت کی شرائط میں سے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ کتاب اللہ اور اصول شرع کے خلاف نہ ہو، چنانچہ انہوں نے متعدد مواقع پر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیان کردہ روایتوں کو محض اس بنا پر رد کردیا کہ وہ ان کے نزدیک اس معیار پر پورا نہیں اترتی تھیں۔ اس ضمن میں جن چند مثالوں کو عام طور پر پیش کیا جاتا ہے ان کا ماخذ اِمام سیوطی رحمہ اللہ (متوفیٰ911ھ)کی کتاب ’’عین الإصابة فیما استدرکته عائشة على الصحابة‘‘ ہے۔ یہاں ہم رسالہ ’’عین الاصابه‘‘ میں سے اس سلسلہ کی چند معروف روایات کو بطور مثال نقل کررہے ہیں: مثال نمبر1: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جب ان کے پاس حضرت عمر کی یہ روایت بیان کی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے موقع پر مشرکین کی لاشوں سے، جو ایک کنویں میں پھینک دی گئی تھیں، مخاطب ہو کر کہا: ﴿ فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا﴾ [1] ’’تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا کیا تمہیں اس کا حق ہونا معلوم ہوگیا ہے؟ ‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا آپ مردوں سے مخاطب ہورہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ما أنتم بأسمع منهم ولکن لا یجیبون)) ’’ان کے سننے کی صلاحیت تم سے کم نہیں ہے، بس اتنی بات ہے کہ یہ جواب نہیں دے سکتے۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ روایت سن کر کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں بلکہ یہ کہا ہوگا کہ اس وقت یہ لوگ جان چکے ہیں کہ جو میں ان سے کہتا تھا وہ حق ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات پڑھیں: ﴿ اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى ﴾[2] ’’بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کونہیں سنا سکتے ۔‘‘ ﴿ وَ مَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ﴾[3] ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو نہیں سنا سکتے جوقبروں میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
Flag Counter