Maktaba Wahhabi

49 - 126
حدیث ہے تو اس کی تصدیق کرتا ہوں۔‘‘ [1] ان دلائل سے خلفائے راشدین کا معیار حدیث کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ ان کے نزدیک صحیح حدیث کو جاننے کے لئے زیادہ تر انحصار اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوجانے پر ہوتا تھا، اس کے بعد وہ ان احادیث کورد کرنے کے لئے انہیں عقلی کسوٹیوں پر پرکھنے کے قائل نہیں تھے، کیونکہ انہیں اس بات کا پورا یقین و ایمان تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ قول و فعل کو سمجھنے میں انسانی عقل کا قصور تو ہوسکتا ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہرگز عقل سلیم کے خلاف نہیں ہوسکتی۔ یہی انداز دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا۔ سند کی تحقیق کے اہتمام کا آغاز اگرچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہوا، لیکن یہ کبھی نہیں ہواکہ کسی صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ حدیث کو درایت یا قرآن کی مخالفت کے دعویٰ سے رد کردیاہو کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پر ایمان تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث قرآن کریم یا درایت کے خلاف ہرگز نہیں ہوسکتی۔ ہاں، البتہ ان کی طرف سے راوی حدیث کی تحمل روایت میں کسی غلط فہمی اور شبہ کا ازالہ ہوسکتا ہے۔ لیکن حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخالفت قرآن و د رایت کی بنا پر رد کردینے کے معیار سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہرگز متعارف نہیں تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت کوئی بھی دو صحیح احادیث نہ باہم معارض ہوسکتی ہیں اور نہ ہی قرآن کریم سے احادیث صحیحہ کا تعارض ممکن ہے۔ اِمام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (متوفیٰ311 ھ) فرماتے ہیں : "لا أعرف أنه روی عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم حدیثان بإسنادین صحیحین، متضادان فمن کان عندہ فلیأت به حتی أؤلّف بینهما." [2] ’’میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح اسانید سے منقول دو حدیثیں بھی ایسی نہیں ہیں جو مفہوم کے اعتبار سے متعارض اور باہم مخالف ہوں۔ اگر کسی شخص کے علم میں ایسی متضاد اور متعارض احادیث ہیں تو میرے پاس لائیں میں ان میں مطابقت اور موافقت ظاہر کروں گا۔ ‘‘ ان کا یہ قول اس بناء پر ہے کہ جب دو حدیثیں صحیح سند سے ثابت ہوجائیں تو اپنے ثبوت کے اعتبار سے قطعی ہو جاتی ہیں اور ان میں اختلاف وتضاد نا ممکن ہے۔ اس لئے محدثین خصوصاً امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ (متوفیٰ 276ھ)، امام شافعی رحمہ اللہ اور دوسرے اکثر محدثین رحمہم اللہ نے ’’مشکل الآثار‘‘ اور ’’مشکل الحدیث‘‘ وغیرہ کے عنوان سے اس قسم کی تمام اخبار کا بڑا ہی عمدہ حل پیش کیا ہے۔ اِمام دارمی رحمہ اللہ (متوفیٰ255 ھ) اپنی سنن کے شروع میں یعلی بن حکیم رحمہ اللہ (متوفیٰ120 ھ) کے طریق سے
Flag Counter