Maktaba Wahhabi

29 - 126
اس سارے معاملے میں بینک اصلا ً مشتری(buyer) نہیں ہے یعنی اس کی اصل حیثیت تو ایک شیء خریدنے کے لیے رقم فراہم کرنے والے(investor) کی ہےکیونکہ گاڑی اسی شخص نے جا کر دیکھی ہے، اسی نے اس کا ماڈل، کلر وغیرہ پسند کیا ہے۔گاڑی خریدنے کے لیے ساری بھاگ دوڑبھی اسی نے کی ہے اور بینک نے صرف رقم فراہم کی ہے اور گاڑی اپنے نام کروا لی ہے۔لہٰذا بینک درحقیقت مشتری (buyer)نہیں ہے اگرچہ وہ کاغذوں میں اپنے آپ کو مشتری دکھا رہا ہے۔پس بینک اس کاروبار میں گاڑیوں کی خرید وفروخت(purchase & sale)نہیں کرتا بلکہ وہ اس مقصد کے لیے رقم فراہم(Financing) کرتاہے اور ان کو سود پر بیچنے کے لیے کرائے (lease)کاحیلہ ایجاد کرتا ہے۔علمائے احناف کے متفقہ فتوی میں ہے: ’’عاقدین کا بنیادی مقصد اجارہ کا معاملہ نہیں ہوتا بلکہ خریداری کا معاملہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔قاعدہ و قانون کی رو سے حکم‘اصل مقصد (بیع) پر ہی لگے گا نہ کہ الفاظ (اجارہ) پر ، یہ بیع مشروط بالاجارہ ہے جو کہ خلاف شریعت ہے۔‘‘ [1] دوسرا اعتراض: اگر بینک کو خریدار (buyer) مان بھی لیاجائے تو پھر بھی اس کی یہ خریداری (purchase) مصنوعی ہے کیونکہ بینک نے یہ گاڑی زید کے مطالبے پر اس کو بیچنے کے لیے خریدی ہے۔اور اس قسم کی خرید و فروخت سے ہمیں منع کیا گیا ہے ۔ حضرت حکیم بن حزام فرماتے ہیں: قَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰه، يَأْتِينِي الرَّجُلُ فَيُرِيدُ مِنِّي الْبَيْعَ لَيْسَ عِنْدِي أَفَأَبْتَاعُهُ لَهُ مِنَ السُّوقِ؟ فَقَالَ: «لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ)) [2] ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پاس ایک شخص آتا ہے وہ مجھے سے ایسی چیز خریدنا چاہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہے تو کیا میں اس کے لیے وہ چیز بازار سے خرید لوں(یعنی بازار سے وہ چیز خرید کر اس کو بیچ دوں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو مت بیچ جو تیرے پاس نہیں ہے۔ ‘‘ امام ابن العربی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔[3] امام نووی (متوفیٰ 676ھ) نے بھی اسےصحیح کہا ہے۔[4] امام ابن قدامہ (متوفیٰ 682ھ) نے بھی اس روایت کو صحیح کہا ہے ۔[5] امام بن دقیق العید(متوفیٰ 702ھ) نے بھی صحیح
Flag Counter