مذکورہ بالا تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ جمہور مفسرین کے نزدیک قوم لوط پرقرآن مجید اور روایات کی روشنی میں عذاب کی شکل یہ تھی کہ حضرت جبرئیل نے اپنے پر سے ان کی بستیوں کو آسمان تک بلند کرکے نیچےالٹا دیا او رپھر ان پرپتھروں کی بارش ہونے لگی کہ جس سے وہ تباہ و برباد ہوگئے۔ خلاصہ کلام مولانا فراہی رحمہ اللہ قرآن مجید کی تفسیر وتوضیح میں نظم قرآن مجید کو روایات اور احادیث پر ترجیح دیتے ہیں اور اپنے فہم سے حاصل شدہ نظم قرآن کو بنیاد بنا کر ایک ایسی نئی تفسیر قرآن پیش کرتے ہیں کہ جس کا اظہار ان سے پہلے کسی مفسر نے نہیں کیا ہوتا۔ کوئی نئی تفسیر پیش کرنے کی ممانعت تو نہیں ہے لیکن دو مسئلے اہم ہیں۔ ایک یہ نظم قرآن کے ذریعے کی گئی تفسیر ہر صورت میں تفسیر القرآن بالقرآن نہیں ہوتی بلکہ بہت دفعہ میں اس میں مفسر کا فہم شامل ہوتا ہے لہٰذا مفسر اس تفسیر کو قطعی الدلالۃ قرار نہ دے، اگر تو وہ ایسا کرے گا تو یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ وہ اپنے فہم کو قرآن مجید قرار دے رہا ہو اور اس سے اختلاف کو ناحق کہہ رہا ہو۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جن نظم قرآن سے تفسیر میں مفسر کا فہم شامل ہو اور دوسری طرف یہ تفسیر بالرائے، تفسیر بالحدیث سے ٹکرا رہی ہو تو ایسی صورت میں روایت کے ذریعے تفسیر کو مفسر کے ذاتی فہم پر ترجیح حاصل ہو گی۔ |