''آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ آخری پیغمبر تھے، لیکن آپ ہرصورت حال کے لیے آخری نمونہ نہ تھے، چنانچہ قرآن میں آپ کے لیے اُسوہ حسنہ کا لفظ آیا ہے نہ کہ اُسوہ کاملہ کا۔کسی پیغمبر کو فائنل ماڈل سمجھنا خدا کے قائم کردہ قانونِ فطرت کی تنسیخ کے ہم معنی ہے۔''[1] کچھ سطروں کےبعد لکھتے ہیں : ''بعد کے زمانے میں حالات کے اندر ایسی تبدیلیاں واقع ہوں گی، کہ حالات کے اعتبار سے حضرت مسیح کا عملی ماڈل زیادہ قابل انطباق (Applicable) بن جائے گا۔'' سلمان رشدی کی بدنام زمانہ کتاب جس میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر دشنام طرازی کی گئی، اس کے بارے میں بھی جناب وحید الدین خاں کا موقف مغالطہ آمیز بلکہ گمراہ کن ہے، جس پر تنقید کی جاتی رہی۔ اس کتاب پر مسلمانوں کے رد عمل کے بارے میں آپ لکھتے ہیں کہ ''ازواجِ مطہرات کے خلاف جو بے ہودہ باتیں سلمان رشدی نے لکھی ہیں، اس کا مصنفِ اوّل عبد اللہ بن ابی تھا، مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اصرار کے باوجود اس کو قتل کرنے سے منع کردیا۔'' [2] ''اینٹی رشدی ایجی ٹیشن(رشدی کے خلاف احتجاج) بلاشبہ لغویت کی حد تک غیر اسلامی تھا۔''(ص۶) ''مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونا اسلام کے قانون جرائم کی کوئی دفعہ نہیں ہے۔ مسلمان اس کے خلاف کوئی کاروائی کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس کو قومی سرکشی کےنام پر کرسکتے ہیں۔ مگر اسلام کے نام پر انہیں ایسا کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ ''(ص ۵۳) پھرجب ڈنمارک اور یورپ کے اخباروں میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے بنائے گئے اور حرمین سمیت پورے دنیا کے مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیا تو خان صاحب نے عجیب مضحکہ خیزموقف اختیار کیا، لکھتے ہیں: ''مذکورہ کارٹون کی حیثیت تو ایک صحافتی جوک(لطیفہ) کی تھی۔ اس قسم کا جوک موجودہ صحافت میں عام ہے۔ لیکن مسلمانوں نے اس کے ردّعمل میں جس طرح نفرت اور |