تشدد کا مظاہرہ کیا، وہ بلاشبہ توہین رسالت کا ایک فعل تھا۔... موجودہ زمانہ آزادی اظہار رائے کا زمانہ ہے۔ ایسے زمانے میں کارٹون جیسے مسئلہ پر ہنگانہ کھڑا کرنا، یقینی طور پر یہ تاثر پیدا کرے گا، کہ اسلام آزادی اظہار کے خلاف ہے۔[1] 'مولانا' وحید الدین خاں کا تصور جہاد بھی گمراہ کن ہے، لکھتے ہیں: ''اسلام میں صرف دفاعی جنگ جائز ہے اور اس کا اختیار بھی صرف حاکم وقت کو حاصل ہوتا ہے۔''[2] ''یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آج کی دنیا میں وائلنٹ ایکٹوازم(پرتشدد حرکیت) منسوخ ہوگیا ہے، اور اس کی جگہ پیس فل ایکٹوازم (پرامن حرکیت)نے لے لی ہے۔اب پیس فلم ایکٹوازم کے تحت ہرقسم کی سرگرمیوں کا حق انسان کو مل چکا ہے۔''[3] اسلام کے تصور امن کے بارے میں لکھتے ہیں: ''مثبت سوچ پر قائم رہنے کا ایک ہی فارمولا ہے اور وہ ہے یک طرفہ اخلاقیات، یعنی یک طرفہ طور پر دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ خواہ وہ اچھا سلوک کرتا ہو یا براسلوک۔''[4] ''مسلمانوں کی جوسیاسی تاریخ بنی، اور ان کے یہاں جو لٹریچر تیار ہوا، اس کے نتیجے میں مسلمانوں کا ذہن یہ بنا کہ دشمن سے لڑو۔ اس کے برعکس مسیحی لوگوں کا ذہن ان کی روایات کے مطابق یہ بنا کہ دشمن سے محبت کرو۔یہی نفسیات دونوں قوموں کے اندر عمومی طورپر پائی جاتی ہیں۔''[5] '' ۸ ؍اکتوبر۲۰۰۱ء کو امریکہ نے افغانستان کے خلاف جو کاروائی کی، وہ انٹرنیشنل نارم(بین الاقوامی اخلاقیات) کے مطابق درست تھی۔ کیونکہ وہ ڈیفنس کے طور پر کی گئی |