تحقیق و تنقید حافظ صلاح الدین یوسف قسط سوم (آخری) حلالۂ ملعونہ مروّجہ کا قرآن سے جواز؟ پس نوشت مضمون کی تکمیل کے بعد چند مزید چیزیں اور نظر سے گزریں یا علم میں آئیں، مناسب معلوم ہوتا ہے وہ بھی نذرِ قارئین کردی جائیں۔ ان میں سے ایک خود مولانا تقی عثمانی صاحب کا فرمودہ ہے کہ حیلے سے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، جب کہ حلالۂ ملعونہ کے جواز کی ساری بنیاد ہی حیلے پر ہے، تعجب ہے کہ محولہ فتوے کے باوجود موصوف حلالۂ ملعونہ کو حیلوں اور باطل تاویلوں سے حلال کرکے دین کو کیوں بازیچۂاطفال بنا رہے ہیں؟ دوسرا، ایک مضمون جو 'معارف' اعظم گڈھ(بھارت) میں آج سے چند سال قبل شائع ہوا تھا، ہمارے ایک فاضل دوست وحید احمد صاحب نے لا کر دکھایا جو پاک وہند سے شائع ہونے والے دینی وعلمی لٹریچر کے مطالعے کے بڑے شوقین ہیں اور کاروباری ہونے کے باوجود بہت اچھا علمی ذوق رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں حنفی(دیوبندی) ہونے کے باوجود اپنے حنفی علما کے تقلیدی جمود پرسخت شاکی ہیں۔ جب راقم نے ان سے'تفویض طلاق' اور'حلالے' والے مضمون کا ذکر کیا تو اُنھوں نے'معارف'کے دوشمارے اپنی لائبریری سے لاکر مجھے دیے جن میں سے ایک میں تفویض طلاق پر مضمون تھا اور دوسرے میں حلالہ مروّ جہ ملعونہ پر۔ راقم کو یہ دونوں مضامین دیکھ کر خوشی بھی ہوئی اور تعجب بھی۔ خوشی اس بات پر ہوئی کہ تفویض طلاق کے بارے میں راقم نے جو کچھ لکھا ہے، وہی موقف'معارف' میں چند سال قبل شائع شدہ مضمون میں اختیار کیا گیا ہے کہ یہ سراسر ناجائز ہے۔ اور تعجب اس پر ہوا کہ فاضل مضمون نگار جامعہ کراچی میں فقہ واسلامیات کے اُستاذ ہیں اور حنفی(بریلوی) مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن اللہ نے موصوف کو مذکورہ دونوں مسئلوں میں تقلیدی جمود سے نکل کر قرآن وحدیث میں بیان کردہ موقف کو اختیار کرنے کی توفیق سے نوازا۔ کَثَّرَ اللّٰه أَمْثَالَهُمْ فِیْنَا |