بہر حال اب یہ سب چیزیں قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہیں۔ پہلے مولانا تقی عثمانی صاحب بالقابہ کا فتوی، اور پھر 'معارف'والا مضمون، اور بعد میں دیگر آراء... ۱۔ حیلے سے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، مولانا تقی عثمانی صاحب کا فتویٰ مولانا تقی عثمانی صاحب حیلۂ 'تملیک زکاۃ' کے بارے میں فرماتے ہیں:(یادرہے یہ حیلہ بھی احناف ہی میں رائج ہے اور انہی کے علما کا تجویز کردہ ہے) ''اور یہ جو تملیک کا حیلہ عام طور پر کیا جاتا ہے کہ کسی غریب کو زکاۃ دے دی اور اس سے کہا کہ تم فلاں کام پر خرچ کردو، وہ غریب بھی جانتا ہے کہ یہ میرے ساتھ کھیل ہو رہا ہے اور حقیقت میں مجھے اس زکاۃ کی رقم میں سے ایک پیسے کا بھی اختیار نہیں ہے تو یہ محض ایک حیلہ ہے اور اس کی وجہ سے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔''[1] اس واضح فتوی کے باوجود کسی حنفی کے اندریہ جرأت نہیں ہے کہ وہ مولانا موصوف سے یہ پوچھ سکے کہ جب مسئلۂ زکاۃ میں حیلے سے حکم میں تبدیلی نہیں آتی تو نکاح جیسے مسئلے میں، جو اس سے کہیں زیادہ اہم ہے، حیلے سے نکاحِ حرام، نکاحِ حلال میں کس طرح تبدیل ہوجاتا ہے؟ اور زناکاری سے مطلقہ عورت زوج اوّل کے لیے کس طرح حلال ہوجاتی ہے؟ اور اب ملاحظہ فر مائیں'معارف' میں شائع شدہ مضمون۔ اس کا عنوان بھی فاضل مقالہ نگار، ڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج صاحب استاذ الفقہ والتفسیر، شعبۂ علوم اسلامی، جامعہ کراچی، ہی کا تجویز کردہ ہے۔ (حال ہی میں فاضل مقالہ نگار کو کراچی میں دہشت گردی کا شکار کردیا گیا، اناللّٰہ وانا الیہ راجعون) ۲۔حلالۂ مرو ّجہ اور قرآنی حلالہ کے درمیان فرق (از حافظ محمد شکیل اوج) عارضی نکاح کو 'حلالہ' کہتے ہیں بشرطے کہ طلاق کو نکاح کی شرط نہ بنایا جائے، تاہم بہ وقت نکاح طلاق کا قصد وارادہ ہو تو کوئی حرج نہیں سمجھاجاتا، اس نکاح میں اوّل الذکر شکل کو ناجائز |