Maktaba Wahhabi

58 - 79
اور گناہ جب کہ مؤخر الذکر صورت کو جائز و روا قراردیا جاتا ہے۔ شرط وقصد کی تفصیل فقہی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے، مسئلہ زیر بحث یہ ہے کہ قرآن مجید نے ﴿فَلا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعدُ حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَ‌هُ٠﴾ [1] کے الفاظ میں جس نکاح کی بات کی ہے، وہ کون سا نکاح ہے مروّجہ حلالہ یا تحلیل شرعی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ فقہی حلالہ قرآنی حلالہ سے بالکل الگ اور مختلف چیز ہے مگر افسوس کہ ہمارے غیر تحقیقی رویے اور قرآن سے ہمارے عدمِ تعلق اورعدمِ غوروفکر کے باعث قرآنی حلالہ، فقہی حلالہ میں گم ہوچکا ہے۔ زیر نظر مضمون میں اسی متاعِ گم شدہ کی تلاش وجستجو ہمارا مقصد ہے، اس سلسلے میں ہمیں چندباتوں پر غور کرنا ہوگا : پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی رو سے نکاح کبھی عارضی نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ دائمی ہوتا ہے، اسی لئے تو 'طلاق' کا قانون بنایا گیا ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان کوئی ناقابل اصلاح نقص پیدا ہوگیا تو اسے طلاق کے ذریعے ختم کیا جاسکے لیکن اگر شرطِ طلاق یا پھر قصدِطلاق کے ساتھ نکاح منعقد ہو تو بتایا جائے کہ اپنے انجام کے اعتبار سے دونوں میں کیا جوہری فرق رہ جاتا ہے؟ مگر حیرت ہے کہ ہمارے فقہا نے قصدِ طلاق کے ساتھ ایسے نکاح کو نہ صرف جائز قرار دیا ہے بلکہ اسے باعثِ اجر وثواب بھی گرداناہے۔[2] لیکن ہمارے نزدیک کسی نکاح میں اگر 'اِحصان' کا معنی نہ پایا جائے تو اسے ازروے قرآن نکاح کہنا محل نظر ہوگا، احصان 'حصن' سے بنا ہے اور حصن قلعہ کو کہتے ہیں، یعنی ایسی جگہ جو لوگوں کے لئے حفاظت کا کام انجام دے۔ شادی شدہ مرد کو محصن اور شادی عورت کو محصنہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ نکاح کے ذریعے وہ ایک دوسرے کو حفاظتِ نفس فراہم کرتے ہیں۔ گویا دونوں ایک قلعہ میں محفوظ ہوجاتے ہیں، مرد بہ ذریعۂ نکاح عورت کو اپنے حصن (حفاظت
Flag Counter