Maktaba Wahhabi

59 - 79
وحمایت) میں لیتا ہے، اس طرح عورت کی عفت وعصمت محفوظ ہوجاتی ہے اور خود مرد کی بے قابو جنسی خواہش کو بھی لگام لگ جاتی ہے، یوں وہ خود بھی نکاح کے حصار میں محفوظ ہوجاتا ہے، قرآن نے مرد کو محصن اور عورت کو محصنہ کہہ کر دراصل اسی حقیقت کی تذکیر کی ہے۔ مُحصنین کے لفظ کے ساتھ ﴿غَيرَ‌ مُسٰفِحينَ وَلا مُتَّخِذى أَخدانٍ ﴾کے الفاظ اس لئے استعمال ہوئے ہیں، تاکہ معلوم ہو کہ شارع نے اپنے ماننے والوں کے لئے اِحصان سے ہٹ کر کھلے بندوں یا چوری چھپے ہر دو طریق سے قائم جنسی تعلقات پر پابندی عائد کررکھی ہے۔ آپ قرآن مجید کے ان الفاظ کو پیش نظر رکھیے:﴿مُحصِنينَ غَيرَ‌ مُسٰفِحينَ وَلا مُتَّخِذى أَخدانٍ﴾ اور غور وخوض کے بعد انصافًا کہیے کہ کیا مروّجہ حلالہ، محصنین کی تعریف میں آتا ہے؟ یعنی کیا یہ حلالہ مرد کو عورت کی عزت وآبروکا محافظ وامین بناتا ہے؟ یا اس کے برعکس عورت کی عزت وناموس کو لوٹنے والا، جس کی مدت عام طور پر دو ایک راتوں پر مشتمل ہوتی ہے؟ دوسرے یہ کہ نکاح میں مرد عورت کی باہمی رضامندی بنیادی عامل کا کردار ادا کرتی ہے اور اس رضامندی کی اہمیت بلکہ ضرورت کاکوئی منکر نہیں ہے تو اب سوال یہ ہے کہ کیا حلالہ میں بھی فریقین کی آزادا نہ مرضی کا کوئی عمل دخل ہوتاہے؟ تیسری بات یہ ہے کہ حلالہ کرتے وقت استقرارِ حمل کی صورت میں آئندہ کے لائحۂ عمل کا کوئی شرعی منصوبہ مرد یا عورت کے ذہن میں ہوتا ہے؟ اور نکاحِ حلالہ کے دوران اگر کوئی فریق فوت ہوجائے تو کیا حقوقِ وراثت پیدا ہونے کا مسئلہ بھی کسی فریق کے ذہن میں ہوتا ہے؟ آپ کو ان سوالوں کا جواب شاید اثبات میں نہ ملے، جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ حلالہ خالصتاً عارضی ہوتا ہے جو ہنگامی صورتِ حال میں وجود پذیر ہوتا ہے اور یہ کہ حلالہ کی 'دائمی نکاح' کی طرح کوئی بنیاد نہیں ہوتی گویا یہ وہ بیج ہے جو درخت پیدا کرنے کے لئے نہیں بویا جاتا۔ چوتھے یہ کہ مرد وعورت جب رشتۂ ازدواج میں بندھ رہے ہوتے ہیں تو فریقین کے متعلقین ایک دوسرے کی معاشی، اخلاقی اور مذہبی حالات کی جانچ پڑتال اور چھان پھٹک میں مصروف ہوجاتے ہیں، پھر لمبی چوڑی تحقیق وتفتیش کے بعد نکاح کا مقدس رشتہ وجود میں آتا ہے، کیا حلالہ بھی اپنے پس منظر میں کسی ایسی ہی انکوائری کا طلب گار ہوتا ہے؟ اپنے ضمیر کی
Flag Counter