عدالت سے پوچھیے، اگر وہ حلالہ کو قرآن کا مطلوب نکاح قرار دے تو بے شک اسے اختیار کرلیجیے، وگرنہ خدارا اس غیر شرعی اور غیر قرآنی عمل کو تحلیل شرعی کا نام نہ دیجیے۔ ﴿مُحصِنينَ غَيرَ مُسٰفِحينَ وَلا مُتَّخِذى أَخدانٍ﴾سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن نے نکاح کو جہاں 'احصان' سے تعبیر کیا ہے، وہیں ان لفظوں سے نکاح کے مفہوم کا کامل احاطہ بھی کرلیا ہے،یعنی نکاح ایسا ہو کہ جو مُسافحت(شہوت رانی) کا غیرہو اور مُسافحت کا غیر وہی ہوسکتا ہے جس میں احصان کا قصد ہو اور جو نکاح قصدِ احصان سے خالی ہو، وہ مسافحت کا غیر نہیں بلکہ اس کا عین ہے۔ جو لوگ نکاح کی غرض وغایت، فقط جنسی ملاپ کو قرار دیتے ہیں، اُنہیں اس آیت پر غور کرنا چاہیے۔ سچ کہیے، کیا مروّجہ حلالہ مردوعورت کے درمیان فقط شہوت رانی اور جنسی تعلقات سے عبارت نہیں ہے؟ اور کیا ایسے نکاح میں دورانِ حلالہ علیٰ الاعلان اور طلاق کے بعد چوری چھپے جنسی رابطے کا امکان نہیں ہے؟... کوئی ہے جو اس پر غور کرے؟ اس لئے کہ جنسی بے راہ روی صرف مرد میں نہیں ہوتی، عورت میں بھی ہوتی ہے۔ حلالہ کی صورت میں اگر ایک بار ہی سہی، کسی عورت نے اپنے مُحلِّل کا ذائقہ چکھ لیا اور اسے مزہ آگیا تو کیا طلاق کے بعد وہ دوبارہ اسی محلل سے جنسی رابطہ بحال رکھنے کی خواہش مند نہیں ہوسکتی؟ کیوں کہ جس طرح﴿مُحصِنينَ غَيرَ مُسٰفِحينَ وَلا مُتَّخِذى أَخدانٍ﴾ کے الفاظ مرد کے تعلق سے آئے ہیں، اسی طرح ﴿مُحصَنٰتٍ غَيرَ مُسٰفِحٰتٍ وَلا مُتَّخِذٰتِ أَخدانٍ﴾ [1]کے الفاظ عورت کے تعلق سے بھی آئے ہیں، مطلب یہ کہ عورتیں بھی محصنہ بننے کے لیے قیدِ نکاح میں آئیں، کھلے بندوں شہوت رانیاں اور خفیہ آشنائیاں کرنے والی نہ بنیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حلالہ جہاں ایک طرف کھلے بندوں اور علیٰ الاعلان (بہ صورت نکاح) شہوت رانی کا ذریعہ بنتا ہے۔وہیں چوری چھپے (بہ صورت طلاق) جنسی ملاپ کی سبیل بھی پیدا کردیتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس قرآنی فقرہ میں معانی کا ایک جہاں سمٹا ہوا ہے۔ اس فقرہ میں نکاح کی ایسی تعریف کی گئی ہے جس کی رو سے صرف متعہ ہی حرام نہیں ٹھہرتا بلکہ مروّجہ حلالہ بھی |