Maktaba Wahhabi

77 - 79
اَخوانِ رسول کا لقب دیا تھا۔''[1] پہلے اقتباس کا خلاصہ ہے کہ مہدی ومسیح علیہما السلام کے ساتھ اَخوانِ رسول کی ٹیم ہو گی جبکہ دوسرے کا یہ ہے کہ اَخوانِ رسول کی ٹیم سی پی ایس کی ٹیم ہے۔اِن دونوں قضیوں کے صغریٰ وکبریٰ سے یہ نتیجہ نکلا کہ مہدی ومسیح کے ساتھ سی پی ایس کی ٹیم ہو گی۔ مولانا وحید الدین خان صاحب کی کسی بھی تحریر کو اٹھا کر دیکھ لیں، اُس میں اِن میں سے ایک،دو،تین یاچار بنیادیں ضرور مل جائیں گی۔ راقم نے اپنی کتاب 'مولانا وحید الدین خان: افکار ونظریات' میں اِن عوامل اور عناصر سے پروان چڑھنے والی خان صاحب کی فکر کا، اُن کے اپنے الفاظ ہی کی روشنی میں' ایک مفصل تحلیلی وتجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ خاں صاحب کے بعض نظریات گمراہ کن بھی ہیں، جن میں بطور خاص ان کا یہ تصور کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فائنل ماڈل (اُسوہ ) نہیں ہیں۔ اقامتِ دین، نفاذِ شریعت اور جہاد اور امن وغیرہ کے حوالے سے دین کا جو مخصوص تصور رکھتے ہیں، اس کی رو سے ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ کے رسول کے اُسوہ میں چونکہ دعوت کے علاوہ جہاد وقتال بھی ہے، لہٰذا یہ اُسوہ ہمارے لیے کامل نمونہ نہیں ہے، کیونکہ آج کے دور میں جہاد وقتال ممکن نہیں رہا۔ آج کے دور میں اُمّت مسلمہ کے لیے حضرت مسیح کا اُسوہ قابل عمل اور نمونہ ہے، جو صرف دعوت وتبلیغ کے عمل پر مبنی تھا۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں: ''مسیح کے ماڈل میں آغاز میں بھی دعوت ہے، اور انجام میں بھی دعوت، مسیح کے دعوتی ماڈل میں، ہجرت اور جہاد (بمعنی قتال) کے واقعات موجود نہیں۔ محمدی ماڈل میں ہجرت اور جنگ اس کے واضح اجزا کے طور پر شامل ہیں۔ لیکن اب حالات نے ہجرت اور جنگ کو ناقابل عمل بنادیا ہے۔''[2] ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ
Flag Counter