یا نہیں، اگر جائز ہے تو حدیث شریف لعن رسول الله المحلل والمحللکا کیا مطلب ہے؟ (۳۵۹) جواب: مطلقہ عورت کسی دوسرے خاوند سے نکاح کر لے اور پھر اس سے طلاق یا موتِ زوج کی وجہ سے علیحدہ ہو کر پہلے زوجِ مطلق کے لیے حلال ہو جاتی ہے، اس کا نام حلالہ ہے۔ لیکن زوج اوّل یا زوجہ کے کسی ولی کی طرف سے زوجِ ثانی سے یہ شرط کرنا کہ وہ طلاق دے دے اور زوجِ ثانی کا اس شرط کو قبول کر کے نکاح کرنا، یہ حرام ہے۔ اس میں فریقین پر لعنت کی گئی ہے۔ حدیث جو سوال میں مذکور ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ تحلیل کی شرط کر کے نکاح کرنا موجبِ لعنت ہے۔[1] ۷۔حلالے کی رائج شکل بالکل متعہ کی طرح ہے! ایک اور حنفی عالم مولانا محفوظ الرحمن قاسمی فاضل دیوبند، مدرّس مدرسہ بیت العلوم مالیگاؤں (بھارت) مجلس واحد کی تین طلاقوں کی خرابیوں کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں: ''جب لوگ دینی ناواقفیت اور جذبات کی شدت سے مجبور ہو کر (اکٹھی) تین طلاق دیتے ہیں تو صحیح حکم کے ظاہر ہونے کے بعد سخت نادم ہوتے ہیں اور دنیا بھر کی حیلہ جوئی اور چارہ گری تلاش کرتے ہیں، ایسی غلط تدبیر اختیار کرتے ہیں کہ پھر وہ عورت اس کے نکاح میں بغیر تحلیل (شرعی) کے آ جائے یا باقی رہ جائے۔ اس سے متعدد خرابیاں رونما ہوتی ہیں۔ اگر طلاق دینے والا حنفی مسلک رکھتا ہے اور اسی پر قائم رہنا چاہتا ہے تو لامحالہ تحلیل کی شکل اختیار کرتا ہے، شرط باندھ کر دوسرے سے نکاح کراتا ہے کہ تم کل طلاق دے دینا اس طرح وہ شریعت کے نزدیک مجرم ٹھہرتا ہے۔ اس کے بعد موصوف نے حلالے کے لعنتی اور زناکاری ہونے کی بابت احادیث وآثار نقل فرمائے ہیں، پھر لکھتے ہیں: ''اب آپ غور کر کے دیکھیے کہ ہمارے معاشرے میں کون سی شکل رائج ہے؟ بالکل |