متعۃ النساء کی طرح مشروط نکاح کیا جاتا ہے اور اگلے دن نکاح کرنے والے سے طلاق لے لی جاتی ہے۔ اس شکل میں بعض ایسے شرم ناک اور حیاسوز قصے سننے میں آتے ہیں کہ کسی طرح شریعت کا مزاج اس کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، جب ہی تو حضرت عمر نے فرمایا: ایسے لوگوں کو میں سنگ سار کروں گا۔''[1] اس کے بعد موصوف نے ایسے بعض واقعات کا ذکر کیا ہے جن میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کر کے رجوع کا حق دینے کے بجائے، تین ہی طلاقیں شمار کر کے صلح اور رجوع کا راستہ بالکل بند کر دیا تو دونوں میاں بیوی کس طرح نہایت عبرت ناک انجام سے دو چار ہوئے۔ اہل علم محولہ کتاب میں یہ واقعات ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ آخر میں فاضل مضمون نگار نے ایسے عبرت ناک انجام سے یا حلالے جیسے لعنتی کام سے بچنے کا حل یہی بتلایا ہے کہ مجلس واحد کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق سمجھا جائے۔[2] ایک ضروری تصحیح '' مروّجہ حلالہ ملعونہ...'' مضمون کی دوسری قسط جو 'محدث'کے گزشتہ شمارے میں شائع ہوئی ہے، اس مضمون کے صفحہ نمبر ۶۹ پر ایک عبارت میں تسامح ہو گیا ہے۔ قارئین اس صفحے کی سطرنمبر۱۶، ۱۷ کو اس طرح پڑھیں: ''عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بالکل آخری دور ۳۳؍ہجری میں پیدا ہوئے۔ (الاعلام از زَ رکلی:۱۳؍۳۹۲) جبکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ۳۵ہجری میں اور حضرت عمر کی شہادت ۲۳ہجری میں ہوئی۔ اس طرح گویا حضرت ابن سیرین کی ولادت ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے ۱۰ سال بعد ہوئی ہے اور وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ بیان کر رہے ہیں؟ اس اعتبار سے'' |