گزری ہے۔ یہ جب جامعہ ازہر (مصر) سے پڑھ کر آئے تو 'دعوتِ فکر ونظر' کے نام سے ایک کتاب تحریر فرمائی جس میں اُنہوں نے نہایت پر زور انداز میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنے پر زور دیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو ایک تعزیری اقدام قرار دیا اور فرمایا کہ اب یہ تعزیری اقدام حلالے جیسی بےغیرتی اور ارتداد کا باعث بنا ہوا ہے، اس لیے علما ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرنے کا فتویٰ دے کر اُمّت پر رحمت کا دروازہ کھول دیں۔ ان کے فرمان کو انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں: ''لوگوں میں شرعی احکام کے علم کا فقدان ہے۔ اُنہیں یہ پتہ ہی نہیں کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا کتنا بڑا جرم ہے اور تلعّب بکتاب الله کے مترادف ہے۔ وہ غیظ وغضب کے حالت میں منہ سے بک جاتے ہیں، اُنہیں تب ہوش آتا ہے جب انہیں بتایا جاتا ہے کہ اُنہوں نے ایک جنبش لب سے اپنے گھر کو برباد کر دیا ہے۔ اس کی رفیقہ حیات اور اس کے ننھے بچوں کی ماں اس پر قطعی حرام ہو گئی ہے۔ اس کی نظروں میں دنیا تاریک ہو جاتی ہے۔ یہ ناگہانی مصیبت اس کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے، پھر وہ علما صاحبان کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں جو باستثناے چند حضرات، بڑی معصومیت سے اُنہیں حلالے کا دروازہ دکھاتے ہیں۔ اس وقت اُنہیں اپنے غیور رسول کی وہ حدیث فراموش ہو جاتی ہے: ((لعن اللّٰه المحلل والمحلل له)) ''حلالہ کرنے والے پر بھی اللہ کی لعنت اور جس (بےغیرت) کے لیے حلالہ کیا جائے، اس پر بھی اللہ کی لعنت۔'' اس سلسلے میں ایک اور حدیث بھی سن لیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کیا میں تمہیں کرائے کے سانڈ کی خبر نہ دوں؟ ہم نے کہا: ضرور اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: وہ حلالہ کرنے والا ہے، اللہ کی لعنت ہو، حلالہ کرنے والے پر بھی اور اس پر بھی جس کے لیے حلالہ کیا جائے۔'' ان علماے ذی شان کے بتائے ہوئے حل کو اگر کوئی بدنصیب قبول کر لیتا ہو گا تو اسلام اپنے کرم فرماؤں کی ستم ظریفی پر چیخ اٹھتا ہو گا اور دین سبز گنبد کے مکین کی دہائی دیتا ہو گا۔ |