۴۔ حلالہ سراسر لغو اور لعنتیوں کا کام ہے! مولانا عبد الحلیم قاسمی (بانی جامعہ حنفیہ،گلبرگ، لاہور) اپنے ایک مکتوب میں تحریر کرتے ہیں: ''اب اس معاملے کو حلالے کے نام سے مشروط نکاح کسی شہوت پرست مرد سے کر دیا جاتا ہے اور صبح اس عورت کو پہلے خاوند کے حوالے کر کے ﴿حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَهُ﴾ پر عمل ظاہر کر دیا جاتا ہے جو سراسر لغو اور لعنتیوں کا کام ہے۔ کوئی غیرت مند آدمی اپنی عورت کو گائے، بھینس اور بکری بنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا، لیکن یہ جو کچھ ہو رہا ہے۔ اللہ کی پناہ مختلف علاقوں میں حلالہ نکالنے کے لیے خاص آدمی ہر وقت تیار رہتے ہیں۔'' آگے 'ایک مجلس کی تین 'طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرنے کو عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق کے دورِ مبارک اور فاروق اعظم کے دور میں دو سال تک کا عمل قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ''حضرت فاروق نے سیاسۃً ایک مجلس میں تین طلاقوں کو تین تسلیم کر لیا تھا، یہ آپ کی سیاست تھی جس میں تبدیلی کا امکان ہے۔ چنانچہ اکثر جلیل القدر صحابہ نے اس معاملے میں اختلاف فرمایا ہے جو کتبِ احادیث میں بادلائل موجود ہے۔ آج تک کسی مفتی کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ یہ لکھ کر دے کہ یہ فیصلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں؟ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ لکیر کے فقیر بن کر غلط راستے پر گامزن ہیں اور ایک ایسے قبیح فعل کا ارتکاب کرتے ہیں جو سراسر سفاح (بدکاری) ہے۔ اس لیے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں لعنتی قرار دیا ہے اور مانگا ہوا بکرا اس کو فرمایا جو زنا کا ارتکاب کرتا ہے۔''[1] ۵۔ اسلام (حلالے کے جواز جیسی)ستم ظریفی پر چیخ اُٹھتا ہو گا !! پیر کرم شاہ ازہری جج سپریم اپلیٹ شریعت بنچ، بریلوی مکتبِ فکر کی ایک نمایاں شخصیت |