لئے استعمال میں آیا ہو۔ یہ جو کچھ بھی ہوا محض اتفاق تھا اور بالکل فطری طورپر واقع ہوا، اسی اتفاق اور فطرت کے حسین امتزاج کو 'قرآنی حلالہ' کہا جاتا ہے اور قرآن نے ﴿فَإِن طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعدُ حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَهُ﴾ والی آیت میں اسی حلالہ کو بیان کیا ہے نہ کہ حلالۂ مروّ جہ کو۔[1] ۳۔ حلالہ قرآن کے خلاف سازش ہے! بھارت کے ایک حنفی عالم مولانا الطاف احمد اعظمی سابق پروفیسر جامعہ ہمدرد، نئی دہلی اپنے ایک فاضلانہ مقالے بعنوان 'اسلام کا قانونِ طلاق' میں لکھتے ہیں: یاد رہے، ان کا یہ مقالہ اس مجموعہ مقالات میں شامل ہے، جو علی گڑھ میں منعقدہ ایک سیمینار میں پیش کیے گیے اور پھر کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ فرماتے ہیں: ''اس وقت مسلم سماج میں جو بہت سے ناپسندیدہ رسوم ورواج اسلام کا ظاہری لبادہ اوڑھ کر داخل ہو گئے اور ان کو قبول بھی کر لیا گیا ہے، ان میں سب سے برا رواج (بیک وقت) تین طلاقوں کا ہے اور پھر حلالے کی گندی رسم۔ بجائے اس کے کہ علما اس غلط رسم ورواج کو مٹاتے، ان کی طرف سے اس کو سندِ جواز مل گئی ہے۔'' اور 'گندی رسم' پر حاشیہ دے کر لکھتے ہیں: ''حلالے کا طریقہ یہ ہے کہ جس شخص کے ساتھ عورت کا نکاح کیا جاتا ہے اس سے پہلے سے طے ہوجاتا ہے کہ وہ نکاح کے بعد ... اس کو طلاق دے دے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ معاملہ قرآن کی ہدایت کے بالکل خلاف ایک سازش ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے اور کرانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔''[2] |