Maktaba Wahhabi

62 - 79
پیر محمد کرم شاہ ازہری نے ﴿ فَإِن طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعدُ حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَ‌هُ﴾ کی جو تفسیر کی ہے، اس میں بھی حلالہ مروّجہ کا ردّ موجود ہے، اسے بھی ایک نظر دیکھ لیجئے۔ فرماتے ہیں: ''یہاں سے تیسری طلاق اور اس کے حکم کا بیان ہے، یعنی اگر تیسری طلاق بھی اس نے دے دی تو اب جب تک وہ کسی دوسرے خاوند سے بالکل اسی طرح بسنے کی نیت سے نکاح نہ کرے، جیسے اس نے پہلے خاوند کے ساتھ کیا تھا اور پھر وہ دوسرا خاوند ہم بستری کرنے کے بعد کچھ مدت گزرنے پر اپنی مرضی سے اسے طلاق نہ دے دے، اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے نکاح میں نہیں جاسکتی، یہ ہے قرآن کریم کا واضح ارشاد، جس میں تاویل کی گنجائش نہیں، آج کل اس کا حل حلالہ کی باعثِ صد نفریں صورت میں تلاش کرلیا گیا ہے، اس کے متعلق حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم پیش نظر رہے: ((لعن اللّٰه المحلل والمحلل له)) [1] ''حلالہ کرنے والے پر بھی اللہ کی پھٹکار اور جس (بے غیرت) کے لئے حلالہ کیاجارہا ہے اس پر بھی اللہ کی پھٹکار۔'' ﴿فَإِن طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعدُ حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَ‌هُ﴾ میں جس تحلیل شرعی کا بیان ہے، وہ عرفًا وہی ہے جو آپ نے پیر صاحب کے حوالہ سے اوپر ملاحظہ کیا، جسے میں اپنے لفظوں میں کچھ اس طرح بیان کروں گا کہ قرآنی حلالہ وہ ہے کہ جس میں بہ وقتِ نکاح، شرطِ طلاق پائی جائے نہ قصدِطلاق۔ فریقین کی باہمی رضامندی سے زندگی بھر کے سنجوگ کے ارادہ سے وہ عورت کسی اور سے نکاح کرے، پھر اگر قدرتی طور پر وہ نکاح کامیاب نہ ہوسکے اور طلاق واقع ہوجائے یا اس عورت کا دوسرا شوہر جہانِ فانی سے ہی رخصت ہوجائے تو اس صورت میں وہ عورت اپنے شوہر کے لیے بہ غرضِ نکاح حلال ہوجائے گی۔ غرض اس تحلیل شرعی میں کوئی سازش اور کوئی خفیہ ہاتھ ایسا نہیں کہ جو عورت کے لئے اس کے پہلے شوہر کو حلال کرنے کے
Flag Counter