سرانجام دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ مسروق نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں بیٹھ کرنماز ادا کی۔[1] وضاحت : یہ اعتراض غلط ہے کیونکہ امام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے، نہ کہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں یہ وضاحت ہے کہ فَجَاءَ رَسُولُ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم حَتَّى جَلَسَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا وَكَانَ رَسُولُ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم يُصَلِّي قَاعِدًا يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم وَالنَّاسُ مُقْتَدُونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللّٰه عَنْهُ[2] اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امام ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں سے قرات شروع کی جہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چھوڑی تھی۔اور اس لئے بھی یہ بات درست نہیں ہے کہ قرآن مجید میں خالق کائنات نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے کو منع کردیا ہے۔ارشاد ہے کہ ﴿يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تُقَدِّموا بَينَ يَدَىِ اللّٰهِ وَرَسولِهِ﴾[3] جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اور ایک بار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امامت میں اس نمازیں ادا کی تھیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی امامت میں اس لئے نمازیں پڑھی تھیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان نمازوں کو ملے تو ایک رکعت اداکی جا چکی تھی لیکن اس آخری نماز میں ابھی پہلی رکعت کے قیام پرہی تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور جماعت کروائی۔[4] اعتراض نمبر ۴: چار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت انس رضی اللہ عنہ ،حضرت اسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ اور حضرت قیس بن فہد رضی اللہ عنہ کافتویٰ اور ان کا عمل قاعد امام کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھنے کاہے اور یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی مخالفت کرتے؟ |