Maktaba Wahhabi

53 - 79
جیساکہ پیچھے عمران بن حصین کی بواسیر کے مرض والی روایت گزر چکی ہے۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ تیمم کرنے والے کی امامت میں متوضی نماز پڑھ سکتا ہے تو یہاں متابعت نہیں ہوئی، اس لئے امام نے پانی دستیاب نہ ہونے کی بناپر یاکسی اورعذر کی بنا پر تیمم کیا تھا جبکہ مقتدی بغیر کسی عذر کے کس طرح تیمم کرسکتے ہیں۔ اسی طرح اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جرابوں؍عمامہ پر مسح کرنے والے امام کی اقتدا میں پاؤں دھونے والے اور ننگے سر کامسح کرنے والے مقتدی نماز کی ہوجاتی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں ہے اورسیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت منسوخ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی روایت ناسخ ہے۔ اعتراض نمبر ۲: بیٹھ کر نماز پڑھانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصّہ تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو بیٹھ کو نماز پڑھانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((لَایَؤُمَّنَّ بعدي جالسا)) وضاحت:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہونے کے لئے شرعی دلیل ضروری ہے جبکہ یہاں کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ((لَایَؤُمَّنَّ بعدي جالسا)) ثابت نہیں ہے کیونکہ یہ روایت ضعیف ہونے کی بنا پر دلیل نہیں بن سکتی،اس روایت میں جابر جعفی راوی کذاب ہے۔[1] نیز ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ یہ روایت مرسل بھی ہے اور مرسل تابعی حجت نہیں ہے[2]۔ اس روایت کے متعلق ابن بزیزہ لکھتے ہیں: "لوصحّ لم یکن فیه حجة لأنه یحتمل أن یکون المراد وضع الصلوة بالجالس أی یعرب قوله جالسا مفعولا لأجله"[3] ''اگر یہ روایت صحیح بھی ثابت ہوجائے تو حجت نہیں ہے کیونکہ یہ احتمال رکھتی ہے کہ اس کی مراد یہ ہو کہ بیٹھنے کی وجہ نماز کو ترک کردینا... '' اعتراض نمبر ۳: بعض اہل علم نے کہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نماز جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جماعت کے دوران ملے تھے، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم امام نہیں تھے بلکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے امامت کافریضہ
Flag Counter