یعنی خاوند خود طلاق نہ دے بلکہ وکیل کے سپرد یہ کام کر دے، تو وہ طلاق خاوند ہی کی طرف سے تسلیم کی جائے گی۔مذکورہ اثر میں یہی دو صورتیں بیان ہوئی ہیں۔ ایک صورت خیارِ طلاق کی سی ہے بلکہ یہ طلاق بالکنایہ ہے اور دوسری توکیل طلاق کی۔ اس اثر سے زیر بحث تفویض طلاق کا اثبات ہرگز نہیں ہوتا۔ دوسرا اثر، جس سے استدلال کیاگیا ہے، حسب ذیل ہے: ''سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس وفد میں ابوا لحلال العتکی رحمۃ اللہ علیہ آئے، تو کہا: ایک آدمی نے اپنی بیوی کو اس کا اختیار دے دیا ہے؟ اُنھوں نے فرمایا: فأمرها بیدها پس اس عورت کااختیار اس کے پاس ہی ہے۔''[1] اس میں بھی وہی خیارِ طلاق بلکہ طلاق بالکنایہ کا اثبات ہے جس سے کسی کو اختلاف نہیں، یعنی لڑائی جھگڑے کی صورت میں عورت کو علیحدگی کا اختیار کنائے کی صورت میں دے دینا، اس اثرکا بھی تفویض طلاق کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تیسرا اثر، جس سے استدلال کیا گیا ہے، حسبِ ذیل ہے: ''سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو اس کا اختیار دے دیا تو انھوں نے فرمایا: "القضاء ماقضت فإن تنا کراحلف" وہ عورت جو فیصلہ کرے گی وہی فیصلہ ہے، پھر اگر وہ دونوں ایک دوسرے کا انکار کریں تو مرد کو قسم دی جائے گی۔''[2] یہ اثر نقل کرکے فاضل مفتی حفظہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: ''یہاں پرچونکہ یہ اختیار نکاح نامے پر شوہر کے دستخطوں اورگواہوں کے ساتھ لکھا ہوا ہے، لہٰذا یہاں کسی قسم کے انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔''[3] لیکن اس اثر میں بھی پہلے قابل غور بات تو یہ ہے کہ اس میں بھی طلاق بالکنایہ والا مسئلہ ہی بیان ہوا ہے یا تفویض طلاق کا؟ واقعے پر غور فرما لیا جائے، اس میں بھی طلاق کنائی یا خیارِ طلاق |