Maktaba Wahhabi

59 - 111
ہے۔ اسی طرح کسی مرد سے یہ اندیشہ ہو کہ وہ نان نفقہ میں کوتاہی کرے گا یا شاید حسن سلوک کے تقاضے پورے نہیں کرے گا، یا رشتے داروں سے میل ملاپ میں ناجائز تنگ کرے گا، وغیرہ؛ تو نکاح کے موقعے پر اس قسم کی شرطیں طے کر لی جائیں تو اُن کا پورا کرنا مرد کے لیے ضروری ہو گا۔یہ حدیث اسی قسم کی شرطوں تک محدود رہے گی۔ اس کے برعکس اگر خاوند یہ شرط عائد کرے کہ وہ بیوی کے نان نفقہ کاذمے دار نہیں ہو گا، شادی کے بعد وہ ماں باپ یا بہن بھائیوں سے ملنے کی اجازت نہیں دے گا، یا میں اس کو پردہ نہیں کرنے دوں گا، وعلیٰ ہذا القیاس اس قسم کی ناجائز شرطیں، تو وہ کالعدم ہوں گی، یا عورت یہ شرط عائد کرے کہ وہ خاوند کو ہم بستری نہیں کرنے دے گی تاکہ بچے پیدا نہ ہوں، یاخاوند کو دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں ہو گی، یا مردوں کے ساتھ مخلوط ملازمت سے وہ نہیں روکے گا وغیرہ وغیرہ۔ تو ان شرطوں کا بھی اعتبار نہیں ہو گا کیونکہ یہ ناجائز شرطیں ہیں یا مقاصدِ نکاح کے منافی ہیں۔ اسی لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو کہ ''عورت اپنی سوتن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ وہ اس کا برتن اُلٹائے۔'' یعنی سہولیاتِ زندگی سے محروم کر دے جو خاوند کے ہاں اس کو میسّر ہیں۔[1] '' کو عنوان''ان شرطوں کا بیان جو نکاح میں جائز نہیں'' میں ذکر کیا ہے، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ شریعت کے عطا کردہ کسی حق کو ختم کرنے کی شرط عائد کی جائے گی تو اُس کا اعتبار نہیں ہو گا۔ بلکہ اس قسم کی شرطوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرما دیا ہے: ((وَالْمسْلِمُوْنَ عَلى شُرُوْطِهِمْ إِلَّاشَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا أَوْ اَحَلَّ حَرَامًا)) [2] ''مسلمانوں کے لیے اپنی طے کردہ شرطوں کی پابندی ضروری ہے، سواے اس شرط کے جو کسی حلال کو حرام یا کسی حرام کو حلال کر دے۔ (ایسی شرطیں کالعدم ہوں گی)'' نکاح کے موقع پر تفویض طلاق کی شرط بھی، شرطِ باطل ہے جس سے مرد کا وہ حق جو اللہ نے صرف مرد کو دیا ہے، وہ اس سے ختم ہو کر عورت کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ مرد کے اس حق شرعی کا عورت کی طرف انتقال، حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دینے ہی کے مترادف
Flag Counter