کی طرح کلام کرتا ہے۔ تو پھر بھیڑیا کہنے لگا: کیا اس سے بھی زیادہ تعجب والی بات کی میں تجھے خبر نہ دوں؟ اور وہ یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یثربی اس بارے میں لوگوں کو پہلے ہی آگاہ کر چکے ہیں۔وہ اس طرح کہ ایک دفعہ ایک چرواہا اپنی بکریاں ہانکتا ہوا مدینہ داخل ہوا۔ وہ انہیں مدینہ کے کسی گوشے میں لے گیا۔اسی دوران آپ نے حکم دیا تو باجماعت نماز کی منادی ہوئی ۔پھر آپ نکلے اور چرواہے سے کہا کہ انہیں بتاؤ تو اُس نے بتادیا۔پھر آپ نے فرمایا: اس نے سچ بولا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک درندے انسانوں سے کلام نہیں کریں گے اور جب تک آدمی کےجوتے کا تسمہ،چابک کا کنارہ بات نہیں کرے گا اور آدمی کی ران اسے خبر دے گی کہ اسکی بیوی نے اس کے بعد باتیں کی ہیں۔‘‘[1] قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس حدیث میں نیچریوں، زنادقہ اور ملحدین کے انکار کی تردید ہے،کیونکہ نظم کلام، ہیبت ورعب[2] پر دلالت نہیں کر رہا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کا اظہار فرمایا ہے :’’ وہ جمادات وحیوانات کے بارے میں جو اس خالق رحمان نے مقدر فرمایا ہے، اس میں سے جب چاہے پیدا فرما سکتا ہے اور جس چیز کو چاہے پیدا فرماسکتا ہے، کیونکہ خلف وسلف میں سے جو عقائد کے ماہرین ہیں ان کی وہی رائے ہے جو کئی اَحادیث میں آئی ہے یعنی حجر وشجر جیسے عمومی طور پر اس کے فرمانبردار ہیں ایسے ہی نطق وکلام میں بھی اس کی مشیت کے تابع ہیں۔ چنانچہ ابن دحیہ کلبی[3] نے بھی روایت کیا ہے۔ صحیحین میں باتفاق علما گائے اور بھیڑیے والی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ د ونوں قربِ قیامت کلام کریں گے۔‘‘[4] |