Maktaba Wahhabi

24 - 62
دن دیکھے گا،نہ اُنہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ ‘‘ ٭ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ بتا رہے ہیں کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے عہد کے بدلے میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات اور اس کے حکم کو بیان کرنے کے بدلے میں تھوڑی قیمت لے لیتے ہیں اور اپنی جھوٹی اور گناہ پر مبنی قسموں کے بدلے میں اس دنیاے فانی کے مفادات حاصل کرتے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں فرمایا ہے کہ ﴿اُولٰئِکَ لاَ خَلَاقَ لَہُمْ فِی الْآخِرَۃِ وَلاَ یُکَلِّمُہُمُ اللّه وَلاَ یَنْظُرُ اِلَیْہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ﴾ ’’یہی لوگ ہیں جن کے لئے روزِقیامت اللہ کے ہاں کوئی اجروثواب نہیں ہوگا اور قیامت والے دن اللہ تعالیٰ نہ ان سے کلام کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف دیکھے گا۔‘‘ یعنی نہ تو اللہ تعالیٰ نرم لہجے میں ان سے بات کریں گے اور نہ ہی نظر رحمت سے ان کی طرف دیکھیں گے۔ ﴿وَلَایُزَکِّیْــــھِمْ﴾ اور نہ ہی ان کو گناہوں اور نجاستوں سے پاک کریں گے بلکہ ان کے بارے میں جہنم کا فیصلہ سنا دیا جائے گا۔‘‘ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انسان کے لئے یہ حرام ہے کہ وہ اس فانی دنیا کے فوائد حاصل کرنے کے لئے اللہ کی جھوٹی قسمیں اُٹھائے۔ایسی قسموں کو علما نے الیمین الغموس(ڈبو دینے والی قسم) کا نام دیا ہے۔ ٭ اسکی وضاحت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص جھوٹی قسم اُٹھاتا ہے اورقسم کے ذریعے وہ اپنے مسلمان بھائی کا مال حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس پر اللہ کا غضب ہوگا (اللہ اس سے ناراض ہوگا)۔‘‘ (صحیح بخاری:۲۲۳۹) ٭ اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’اللہ کی قسم یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ میرے اور ایک یہودی کے درمیان زمین کے معاملے میں جھگڑا ہوگیا اور میں اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کہا کہ کیا تیرے پاس کوئی گواہی ہے؟ میں نے کہا: نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سے کہا : ((احلف!)) تو قسم اُٹھا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر وہ قسم اُٹھائے گا تو میرا مال لے جائے گا تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿ إِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ
Flag Counter