Maktaba Wahhabi

77 - 78
والی تمام قلمی اور فلمی جسارتوں سے بڑھ کر ہوگی۔ ہالینڈ کے میڈیا نے اس سلسلے میں ایک سروے بھی کیا جس کے مطابق ۶۵ فیصد ولندیزی شہری اس بات کے حق میں ہیں کہ اس فلم کو نشر کرنے کی اجازت دی جائے۔ گریٹ ولڈرز اس سلسلے کی پہلی کڑی نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی ہالینڈ میں ہی ایک فلمSubmissionکے نام سے بن چکی ہے جس پر دنیا بھر میں احتجاج ہوا تھا۔ اس فلم کا ڈائریکٹر تھیوگوان تھا اور ریان ہرسی علی نامی صومالی لڑکی نے اس کااسکرپٹ لکھا تھا۔ اس فلم میں ننگی عورتوں کے جسم پر پروجیکٹر کی مدد سے روشنی ڈال کر قرآنی آیات لکھی گئی تھیں ۔ ریان ہرسی علی نے یہ دکھایا کہ یہ وہ آیات ہیں جن میں اسلام اور قرآن نے عورتوں کے حقوق غصب کئے ہیں ، اُنہیں نصف شہری قرار دیا ہے اور اس طرح سے عورت کو کمتر قرار دے کر اس پر ظلم کے دروازے کھول دیئے ہیں ۔ اس فلم کے ڈائریکٹر تھیوگوان کو محمدبوعیری نامی ایک شخص نے قتل کیا تھا اور اس کے سینے پر خنجر کے ذریعے ایک پرچہ بھی لٹکا دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ریان ہرسی علی اپنی موت کا انتظار کرے۔ ناموسِ رسالت کے پروانے محمد بوعیری کو گرفتار کرکے عمر قید کی سزا دی گئی جبکہ ریان ہرسی علی کو انتہائی سخت سکیورٹی فراہم کی گئی۔ اس کے بقول حکومت اس کی حفاظت پر اب تک ۳۵لاکھ یورو خرچ کر چکی ہے۔ ریان نے جب اس فلم کا اسکرپٹ لکھا تھا تب وہ بھی پارلیمنٹ کی ممبر تھی۔ ریان صومالی عورت ہے جو کہ ہالینڈ میں سیاسی پناہ گزین کے طور پر آئی تھی اور اب اسے وہاں کی شہریت بھی دے دی گئی ہے۔ ہالینڈ کا ایک اور ممبر پارلیمنٹ ’پم فارچوین‘ بھی اسی ملعون گروہ کا فرد تھا۔ اس نے بھی ہالینڈ میں مسلمانوں کے خلاف گویا ایک تحریک برپا کررکھی تھی۔ وہ ہر فورم پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلتا تھا۔ اس کے بھی اسرائیلی حکام سے بہت گہرے مراسم تھے۔ اسے ہالینڈ میں جانوروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک این جی او کے ممبر گاف نے قتل کردیا تھا۔ بعد میں گاف نے عدالت میں اپنے بیان میں کہا کہ ’پم‘ جن خیالات کا پرچار کررہا تھا اس سے ہمارے معاشرے کے ایک کمزور حصے یعنی مسلمانوں کی تذلیل ہوتی ہے اور
Flag Counter