آخرکار تیسری باراس سے بیعت کرلی۔ پھر اپنے صحابہ سے گویا ہوئے : کیا تم میں کوئی سمجھ دار شخص نہیں تھا کہ جب میں عبد اللہ کی بیعت قبول کرنے سے انکار کررہا تھا تو وہ عبد اللہ کو قتل کردیتا؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جواب دیا: ہمیں کیسے اس بات کا پتہ چلتا (کہ اس کو قتل کردیا جائے) ؟ آپ ہمیں آنکھ سے ہی اشارہ فرمادیتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ کسی نبی کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ آنکھوں سے اشارے کرے۔‘‘ فتح الباری میں عبد اللہ بن ابی سرح کا جرم ارتداد ذکر کیا گیا ہے۔(۱۲/۹۵) جبکہ بعض دیگر کتب ِسیرت میں اس کو توہین رسالت کا مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔ بعض دیگر واقعات 6. عن البراء بن عازب قال بعث رسول اﷲ إلی أبي رافع الیہودي رجالا من الأنصار فأمّر علیہم عبد اﷲ بن عتیک وکان أبو رافع یؤذي رسول اﷲ ویعین علیہ (صحیح بخاری: ۴۰۳۹) ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو رافع یہودی کوقتل کرنے کے لئے چند انصار کا انتخاب فرمایاجن پر عبد اللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کیا گیا۔ اور یہ ابو رافع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیا کرتا تھا اور آپ کے خلاف لوگوں کی مدد کیا کرتا تھا۔‘‘ (مزید تفصیل دیکھیں : فتح الباری: ۷/۳۴۲، ۳۴۳، تاریخ طبری: ۳/۶) 7. عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بِلْقِین: أَنَّ امْرَأَۃً سَبَّتِ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَتَلَہَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ(السنن الکبریٰ از امام بیہقی ۸/۲۰۳) ’’حضرت عروہ بن محمد بلقین کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برُا بھلا کہا توحضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کردیا۔‘‘ ٭ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بِلْقِیْن أَو قَالَ أُلْفِیَنَّ: أَنَّ امْرَأۃً کَانَتْ تَسُبُّ النَّبِيَّ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ یَکْفِیْنِيْ عَدُوِّيْ؟ فَخَرَجَ إِلَیْہَا خُالِدُ بْنُ الْوَلِیْدُ فَقَتَلَہَا (مصنف عبد الرزاق: ۹۷۰۵، المحلی از ابن حزم: ۱۱/۴۱۳، الشفائ: ۲/۹۵۱) ’’ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کیا کرتی تھی، تو آپ نے فرمایا: میرے اس دشمن سے کون میرا بدلہ لے گا۔ چنانچہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ گئے اور جاکر اس کو قتل کردیا۔‘‘ 8. عَنْ عَلِیٍّ أَنَّ یَہُودِیَّۃً کَانَتْ تَشْتُمُ النَّبِيَّ وَتَقَعُ فِیہِ فَخَنَقَہَا رَجُلٌ حَتَّی |