Maktaba Wahhabi

68 - 78
تھی۔ جب اس نے اپنے ہاتھ سے چھوکر دیکھا تواس کو لگا کہ وہ بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ عمیر نے بچہ اس سے علیحدہ کیا اور اپنی تلوار اس کے سینے پر رکھی اور اس کے پیٹ کے پار اُتار دی۔ پھر وہ وہاں سے نکلے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے اور عمیر کی طرف دیکھا تو فرمایا: کیا تو نے مروان کی بیٹی کو قتل کردیا ہے؟ عمیر نے جواب دیا: جی ہاں ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں ۔ عمیر کو ڈر محسوس ہواکہ کہیں اس کے قتل کی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ناراض نہ ہوں ۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اس کا مجھ پر کوئی گناہ تو نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ۔ میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ محاورہ پہلی مرتبہ سنا تھا۔ عمیر کہتے ہیں ! پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اگر تم کسی ایسے آدمی کو دیکھنا پسند کرو جس نے غیب میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کی ہے تو عمیر رضی اللہ عنہ بن عدی کو دیکھ لو۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس نابینے کی طرف دیکھو جو کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں چلتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے نابینا مت کہو یہ تو بینا ہے۔ عمیر رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت سے واپس لوٹے تو اپنے بیٹوں کو لوگوں کی ایک جماعت کے ساتھ مل کر اسے دفن کرتے ہوئے پایا، جب ان لوگوں نے انہیں مدینہ کی جانب سے آتے ہوئے دیکھا تو ان کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا: اے عمیر رضی اللہ عنہ ! کیا تم نے اسے قتل کیا ہے؟ عمیر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ہاں ! چاہو تو تم سب میرے خلاف تدبیر کرلو اور مجھے کوئی مہلت نہ دو۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم سب بھی وہی بات کہو جو اس نے کہی تھی تو میں تم سب کو اپنی تلوار سے قتل کردوں گا یا خود مرجاؤں گا۔ یہی وہ دن تھا کہ بنو خطمہ قبیلے میں اسلام غالب ہوا ورنہ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو اپنی قوم کے ڈر سے اسلام کو حقیر سمجھتے تھے۔‘‘ (المغازی للواقدی ۱/۶۴،۱۷۳؛ الصارم المسلول علی شاتم الرسول۹۴، ۹۵، مجمع الزوائد : ۶/۴۶۰) 5. عبد اللہ بن خطل اور عبد اللہ بن ابی سرح کا واقعہ یہ شخص پہلے مسلمان ہوگیا تھا، آپ نے اسے عاملِ زکوٰۃ بنا کر بھیجا تو صدقات وصول کرنے کے بعد راستے میں اپنے غلام سے ناراض ہوکر اسے قتل کردیا اور خود مرتد ہوگیا۔
Flag Counter