Maktaba Wahhabi

71 - 79
20. مردہ مچھلی کا حلال ہونا (صحیح بخاری:۴۳۶۲) 21. جوتا پہنتے وقت پہلے دائیں پاؤں میں جوتا پہننا اور اُتارتے وقت پہلے بائیں پاؤں سے جوتا اُتارنا (صحیح بخاری:۵۸۵۶) 22. مسجد میں داخل ہوتے وقت دعا کرنا اور مسجد سے باہر نکلتے وقت دعا کرنا (صحیح مسلم:۷۱۳) 23. نومولود کو گھٹی دینا(صحیح بخاری:۵۴۶۷) 24. حج مبرور کی جزا جنت ہے! (صحیح بخاری:۱۷۷۳) 25. وضو میں موزوں اور جرابوں پر مسح کرنا (صحیح بخاری:۲۰۵،سنن ابی داود:۱۴۶) یہ اور اس طرح کے سینکڑوں دینی اعمال و اَحکام ہیں جو صرف صحیح حدیث سے ثابت ہوتے ہیں اور ان کو دینی اعمال و اَحکام یا ’سنت‘ سے خارج سمجھنا (جیسا کہ غامدی صاحب سمجھتے ہیں ) اسلام سے ناواقفیت اور پرلے درجے کی جہالت ہے۔ البتہ یہ بات ضرور پیش نظر رہنی چاہئے کہ کسی حدیث کو صرف اسی صور ت میں قبول کیا جائے گا جب وہ صحیح طور پر ثابت ہو۔ ضعیف اور موضوع قسم کی کسی حدیث سے دین کا کوئی حکم یا عمل ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔ حدیث کی اہمیت اور حجیت ایک مسلّمہ دینی امر ہے اور غامدی صاحب دین کے مسلمات ہی کے منکر ہیں ۔ اس لئے وہ ہمارے نزدیک نہ صرف منکر ِحدیث ہیں بلکہ منکر دین بھی ہیں ۔ حدیث سے محرومی پورے دین سے محرومی ہے۔ دین ایک اکائی ہے اور اس کے کسی ایک جزو کا انکار اس کے کل کا انکار ہے۔ آپ یہ نہیں کرسکتے کہ اسلام کے بعض عقائد و اعمال کو مانیں اور بعض کو نہ مانیں ۔ آپ کو یا تو اسلام کے تمام عقائد و اعمال کو تسلیم کرنا ہوگا یا سب کو ترک کرنا ہوگا۔آدھا، پونا، تہائی اور دو تہائی اسلام ایک بے معنی چیز ہے۔ دین اسلام میں اگر آپ حدیث کو چھوڑ دیں گے تو آپ کو پورے دین اسلام سے ہاتھ دھونے پڑیں گے اور کوئی مسلمان اپنے آپ کو دین سے محروم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔ غامدی صاحب کو سوچنا چاہئے کہ حدیث کے بارے میں وہ اپنا عجیب وغریب نظریہ اختیار کرنے کے بعد کہاں کھڑے ہیں ؟ دائرئہ اسلام کے اندر یا دائرئہ اسلام کے باہر؟ کیونکہ دائرئہ اسلام کے اندر والے تمام اہل اسلام، اسلام کے بیشتر عقائد اور اعمال و احکام حدیث ہی سے لیتے ہیں جبکہ غامدی صاحب حدیث سے کوئی عقیدہ یا عمل یا حکم لینے ہی کے منکر ہیں ۔
Flag Counter