Maktaba Wahhabi

66 - 79
تحقیق وتنقید محمد رفیق چودھری قسط دوم غامدی صاحب اور انکارِ حدیث اس سلسلۂ مضامین میں اُن اُمور پر تفصیلی بحث و گفتگو کی جارہی ہے، جن کی بنا پر ہمارے نزدیک غامدی صاحب کا شمار منکرین حدیث میں ہوتا ہے اور اُن کا نظریۂ حدیث انکارِ حدیث پر مبنی ہے۔ پہلی قسط میں ہم نے غامدی صاحب کو اس لئے منکر ِحدیث قرار دیا تھا کہ وہ سنت کی ابتدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ماننے کی بجائے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے مانتے ہیں اور سنت کی اسلامی اصطلاح کا مسلّمہ مفہوم چھوڑ کر اس سے اپنا خود ساختہ مفہوم نکالتے ہیں ۔ اب ہم زیر نظر مضمون میں اُن کے انکارِ حدیث کے کچھ نئے وجوہ بتائیں گے۔ ٭ چنانچہ وہ حدیث کی اہمیت اور حجیت کا انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے اخبارِ آحاد جنہیں بالعموم ’حدیث‘ کہا جاتا ہے، اُن کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا ہرگز کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔‘‘ (میزان :ص۱۰،۱۱ طبع دوم اپریل ۲۰۰۲ئ، لاہور واُصول و مبادی: ص۱۱، طبع دوم فروری ۲۰۰۵ئ، لاہور) ٭ پھر اپنی اس بات کو وہ واضح اور دو ٹوک انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں : ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبارِ آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں ’حدیث‘ کہا جاتا ہے، اُن کے بارے میں یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ اُن سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔‘‘ (اُصول و مبادی : ص۶۸، طبع دوم فروری ۲۰۰۵ئ، لاہور) ٭ پھر اپنے اس نظریے کو وہ بطورِ ایک اُصولِ حدیث کے، یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’اس (حدیث) سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔‘‘ (میزان : ص۶۸، طبع دوم اپریل ۲۰۰۲ئ، لاہور) مذکورہ حوالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک
Flag Counter