Maktaba Wahhabi

67 - 79
1. حدیث صرف اخبارِ آحاد کا نام ہے۔ 2. حدیث اور دین الگ الگ چیزیں ہیں ۔ 3. کسی حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔ 4. کسی حدیث سے دین کا کوئی عمل ثابت نہیں ہوتا۔ اَب ہم ان تمام اُمور پر تفصیلی گفتگو کریں گے : 1. کیا حدیث صرف اخبارِ آحاد کا نام ہے؟ علمِ حدیث کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ حدیث صرف اخبارِ آحاد کا نام نہیں بلکہ اس میں اخبارِ متواترہ بھی شامل ہوتی ہیں ۔ یہ غامدی صاحب کی ’روشن خیالی‘ ہے کہ وہ حدیث کو صرف اَخبارِ آحاد میں محصور و محدود قرار دیتے ہیں ۔ اگر وہ اپنی ’رُبع صدی‘ پر محیط دینی تحقیق کے ساتھ ساتھ کبھی چند لمحے اس پر بھی صرف کرتے کہ علم حدیث کی کوئی متداول کتاب مثلاً ’مقدمہ ابن الصلاح‘ اور ’نخبۃ الفکر‘ ہی دیکھ لیتے تو اُن کو یہ معلوم ہوجاتا کہ حدیث صرف اخبارِ آحاد کا نام نہیں ہے بلکہ اس اصطلاح میں اخبارِ متواترہ بھی شامل ہوتی ہیں ۔ اُمت کے کسی فقیہ یا ’محدث‘ نے آج تک حدیث سے صرف اخبارِ آحاد مراد نہیں لیں اور نہ کسی نے اخبارِ متواترہ کو حدیث سے خارج قرار دیا ہے۔ یہ ’اعزاز‘ صدیوں بعد صرف غامدی صاحب کو حاصل ہوا ہے جنہوں نے تمام محدثین اورفقہا کے برخلاف صرف اخبارِ آحاد کو حدیث سمجھا ہے اور اخبارِ متواترہ کو حدیث کے زمرہ سے نکال باہر کیا ہے۔ جیسا کہ میں نے کئی بار واضح کیا ہے کہ غامدی صاحب کا ’طریق واردات‘ یہ ہے کہ وہ اصطلاحات تو علماے اسلام کی استعمال کرتے ہیں مگر ان کے معانی اپنے جی سے گھڑ لیتے ہیں اور اس طرح خود گمراہ ہوتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ۔ وحی، کتاب، سنت، تواتر، فطرت، اِجماع، معروف، منکر اور عرف جیسی بہت سی اسلامی اصطلاحات کے من گھڑت معنی لے کر اُنہوں نے دوسروں کو مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ غامدی صاحب نے اخبارِ متواترہ کو ’حدیث‘ کے زمرے سے خارج کرکے میرے نزدیک ’انکارِ حدیث کا ارتکاب‘ کیا ہے۔ 2. کیا حدیث اور دین دو الگ الگ چیزیں ہیں ؟ غامدی صاحب نے حدیث اور دین کو دو الگ الگ چیزیں سمجھ رکھا ہے۔ اُن کے نزدیک
Flag Counter