Maktaba Wahhabi

68 - 79
حدیث دین سے خارج کوئی شے ہے، جس سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ گویا دین حدیث کے بغیر بھی مکمل ہے اور حدیث دین سے زائد کوئی چیز ہے۔ غامدی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ حدیث کے بغیر دین کا تصور صرف منکرینِ حدیث کے ہاں پایا جاتا ہے۔ اہل اسلام حدیث و سنت کے بغیر اسلام کو مکمل نہیں سمجھتے، کیونکہ اسلام نام ہی قرآن و حدیث کے مجموعے کا ہے۔ اگر حدیث کو اسلام سے خارج کردیا جائے توجو کچھ باقی بچے گا، وہ صحیح اسلام نہیں ہوگا بلکہ ناقص اور اُدھورا اسلام ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ناقص اور اُدھورا اسلام مقبول نہیں ۔ 3. کیا حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا؟ غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام کے جو عقائد صرف حدیث سے ثابت ہیں ، وہ اُن سب کے منکر ہیں ۔ اہل علم جانتے ہیں کہ بہت سے اسلامی عقائد کی بنیاد صرف ’احادیث‘ پر ہے اور وہ صرف حدیث ہی سے ثابت ہیں جیسے : 1. تقدیر پر ایمان: تقدیر پر ایمان لانا حدیث ِجبریل علیہ السلام سے ثابت ہے اور اس حدیث میں جو اُمور بیان ہوئے ہیں ، اُن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’دین‘ قرار دیا ہے((یُعَلِّمکم دینکم))(صحیح مسلم:۹) لہٰذا تقدیر پر ایمان لانادین کا حصہ ہے اور اُن امور میں سے ہے جن پر ایمان لائے بغیر کسی مسلمان کا ایمان کامل نہیں ہوتا۔ مگر غامدی صاحب فرما رہے ہیں کہ حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔ اگریہ کہا جائے کہ تقدیر پر ایمان لانا کوئی الگ عقیدہ نہیں ہے بلکہ یہ توحید کے عقیدے کی فرع ہے تو پھر عقیدۂ آخرت کو عقیدۂ توحید کی فرع قرار دینے میں کون سا امر مانع ہے۔ وہ بھی تو توحید ہی کے عقیدے کی فرع ہے، لیکن اُس کی ایک مستقل حیثیت ہے اسی طرح تقدیر پر ایمان لانے کا عقیدہ بھی اپنی ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث ِجبریل علیہ السلام میں اس کو الگ اور مستقل حیثیت سے بیان فرمایا ہے اور اس عقیدے کے بغیر کسی مسلمان کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ عقیدۂ توحید کے علاوہ بہت سے عقائد احادیث ہی کی بنیاد رکھتے ہیں ، مثال کے طور پر 2. قبر کا عذاب (صحیح بخاری:۱۳۷۲)
Flag Counter