سواے انا ﷲ وانا الیہ راجعون کہنے کے اور کیا ہوسکتا تھا؟ ظلم کا انتقام یزید، ابن زیاد، عمرو بن سعد، شمر اور دیگر ظالموں نے ظلم کا خمیازہ اسی دنیا میں بہت جلد بھگتا۔ یزیدنے دردِ قولنج میں تڑپ تڑپ کر ۳۹ سال کی عمر میں جان دی، اس نے اپنے بیٹے معاویہ کو آخری وقت میں وصیت کے لئے بلایا مگر اس نے خلیفہ بننے سے صاف انکارکردیا۔ مختار ثقفی نے قوت پکڑ کر اہل بیت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قاتلوں کو چن چن کر قتل کیا۔ ان ہی میں عمرو بن سعد، شمر اور دیگر ہزارہا اشقیا قتل ہوئے۔ آخر میں ابن زیاد کا سرطشت میں رکھ کر اسی محل میں مختار ثقفی کے سامنے پیش کیا گیا جس میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر ابن زیاد کے سامنے لایا گیا تھا۔ مختار ثقفی کے بعد مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے رہے سہے ظالموں کو بھی موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ قتل حسین رضی اللہ عنہ اصل میں مرگِ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد برادرانِ اسلام سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی حیاتِ طیبہ پر غور کیجئے کہ اُنہوں نے کس صبرواستقلال،اولوالعزمی اور جوانمردی سے دنیا کے سخت سے سخت مصائب و نوائب کا مقابلہ کیا۔ آخری دم تک حوصلہ نہ چھوڑا۔ قیامِ عدل وانصاف اور حصولِ آزادی کے لئے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے عزیزوں کو خاک و خون میں تڑپتے دیکھا اور آخر خود بھی جامِ شہادت نوش کیا۔ آخر وقت میں بھی نماز کو ادا کیا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہے۔ اے جوانانِ ملت! سیدناحسین رضی اللہ تعالے عنہ کی یہ عظیم الشان شہادت ہمارے لئے ایک دائمی اُسوہ حسنہ ہے۔ وہ اس مظلومیت کے علمبردار ہیں جس سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مرصع ہے۔ جب بھی فرزندانِ اسلام پرظلم و استبداد اور غلامی کا ابر ِ غلیظ مسلط ہوگا۔ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا اُسوہ حسنہ رہنمائی کرے گا۔ کاش!اہل بیت کی خصوصی محبت کا دم بھرنے والے ماتم اور تعزیہ وغیرہ مشرکانہ بدعات چھوڑ کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عظیم الشان قربانی کے اصل مقصد پر غور کریں ۔ اللہ تعالیٰ سب کلمہ گو مسلمانوں کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے دلیرانہ نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! |