یزید کا دربار تیسرے روز ابن زیاد نے شمر کی نگرانی میں ایک دستہ فوج کے ساتھ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سرمبارک اور اہل بیت کو یزید کے پاس دمشق بھیج دیا۔ یزید نے میدانِ کربلا کے واقعات سنے تو روپڑا اور کہنے لگا: خدا ابن زیاد پر لعنت کرے۔ خدا کی قسم! اگر میں وہاں ہوتا تو حسین رضی اللہ عنہ سے ضرور درگزر کرتا۔ اللہ تعالیٰ حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ (ابن جریر کامل، تاریخ کبیر) شام کے وقت یزید نے اہل بیت کو اپنے سرداروں کی مجلس میں بلایا اور مشورہ کیا۔ نعمان بن بشیر نے کہا: ان کیساتھ وہی سلوک کرو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس حال میں دیکھ کرکرتے۔ حضرت فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہ نے کہا: اے یزید! یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں ہیں ۔ اس نسبت کے ذکر سے یزید اور اسکے درباری متاثر ہوئے اور انکی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہہ نکلے۔ اسی اثنا میں واقعات کی خبر یزیدکے حرم سرا میں پہنچی اور یزید کی بیوی ہند بنت عبداللہ منہ پرنقاب ڈال کر باہر آئی اور کہا: امیرالمومنین کیا حسین بن فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر آیا ہے ؟ یزید نے کہا: ہاں ! تم خوب روؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور قریش کے اصیل پر ماتم کرو، بین کرو،ابن زیاد نے بہت جلدی کی کہ اُنہیں قتل کرڈالا۔ خدا اسے بھی قتل کرے! جب اہل بیت کی خواتین یزید کے محل میں پہنچائی گئیں تو خاندانِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی خواتین نے اُنہیں دیکھ کر بے اختیار رونا پیٹنا شروع کردیا۔ چند روز کے بعد یزید نے اہل بیت کو مدینہ کی طرف رخصت کیا۔ محافظ نے راستہ میں اس مصیبت زدہ قافلہ سے بہت اچھا برتاؤ کیا جب منزلِ مقصود پر پہنچے تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا بنت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت ِحسین رضی اللہ عنہ نے اپنی چوڑیاں اور کنگن اسے بھیجا اور کہا یہ تمہاری نیکی کا بدلہ ہے ہمارے پاس ا س کے سوا اور کچھ نہیں کہ تمہیں دیں ۔ محافظ نے زیور واپس کردیئے اور کہا ۔ واللہ! میرا یہ برتاؤ کسی دنیوی طمع سے نہیں تھا۔ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاسداری مقصود تھی۔ یہ مظلوم قافلہ جب مدینہ میں پہنچاتو تمام شہر پر افسردگی اور مایوسی چھا گئی ۔ بنی ہاشم کے لوگ زاروقطار رونے لگے مگر بجزصبر و شکر کے کیا چارہ تھا۔ اور |