اپنی قمچی کو ہٹا، میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے وہ اُنہیں چومتے اور پیار کرتے تھے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بھی اِنہیں الفاظ کا اعادہ کیا اور ابن زیاد کو اس حرکت سے ڈانٹا۔ ابن زیاد یہ الفاظ اور ڈانٹ سن کر آگ بگولا ہوگیا اور یہ کہہ کر اسی وقت حضرت انس رضی اللہ عنہ اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو دربار سے نکلوا دیا کہ ’’تمہاری صحابیت اور بڑھاپے پر رحم کرتا ہوں ، ورنہ ابھی مروا ڈالتا۔ وہ یہ کہتے ہوئے باہر چلے گئے کہ تو وہ لعین ہے کہ ’’جب تو نے فرزند رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کروا دیا تو ہماری ہستی کیا ہے؟‘‘ اس کے بعد ابن زیاد نے اس کامیابی پر کھڑے ہوکر خدا کا شکریہ ادا کیا کہ اللہ کا احسان ہے جس نے ہمیں فتح عطا کی اور ہمارے دشمنوں کو تنگی اور مصیبت میں گرفتار کیا۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا : خدا کا احسان ہے جس نے ہمیں خاندانِ نبوت میں پیدا کرکے شرف و بزرگی عطا فرمائی۔ ابن زیاد بولاکہ ’’دیکھو لو اپنے بھائی کا انجام جس نے اسے خاک میں ملا دیا۔ یہ ہے اس کی قدرتِ جلیلہ۔‘‘ اس کے جواب میں حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ نے یہ آیت ِکریمہ تلاوت کی ﴿قُلْ لَّوْ کُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِکُمْ لَبَرَزَ الَّذِیْنَ کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقَتْلُ اِلی مَضَاجِعِھِمْ﴾ پھر کہا کہ وہ وقت دور نہیں جب ہمارا اور تمہارا معاملہ احکم الحاکمین کے سامنے پیش ہوگا۔ ابن زیاد نے جھلا کر پوچھا: یہ کون ہے؟ جب معلوم ہوا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا فرزند ہے تو فوراً حکم دے دیا کہ اسے قتل کردیا جائے۔ پھر بولا: میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا کہ نسلِ حسین سے کوئی اولادِ ذکور باقی نہ رکھی جائے۔ اس حکم پرحضرت زینب رضی اللہ عنہا تڑپ گئیں اور فرمایا: ’’بدبخت ! کیا نسلِ محمدیؐ کو دنیا سے ناپید کرنا چاہتا ہے۔‘‘ اس کے بعد آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر دعا کی کہ یاالہٰا! تیرے رسول کا سب خاندان ان ظالموں کے ہاتھوں برباد ہوچکا۔ تیرے رسول کا نواسہ انتہائی مصائب اُٹھا کر شہید ہوگیا اور اب یہ شقی تیرے رسول کی نسل ہی قطع کرنے کے درپے ہے۔ فریاد ہے اے بے کسوں کے وارث! فریاد ہے۔ اپنی بندی کی سن اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل قائم رکھ! اس دعا میں کچھ ایسا درد تھا کہ فوراً قبول ہوگئی اور ابن زیاد نے اپنا حکم واپس لے لیا۔ |