حکم دیا۔ کیونکہ مظاہر ِشقاوت سے وہ تھک چکے تھے۔ دوسرے دن مقتول کوفیوں کی لاشیں عمرو بن سعد نے نماز ِجنازہ پڑھ کر دفن کرا دیں مگر شہدا کی لاشیں ویسے ہی چھوڑدیں جنہیں بعد میں قریبی آبادی کے لوگوں نے سپردِ خاک کیا۔ سہ پہر کو عمرو بن سعد نے ۷۲ شہدائے اہل بیت کے کٹے ہوئے سر مختلف قبائل کے سرداروں کو علی قدرِ مراتب دو دو، چار چار اور چھ چھ تقسیم کئے جن کو اُنہوں نے نیزوں پر چڑھا لیا اور بڑے تزک و احتشام کے ساتھ یہ لشکر فتح و ظفر کے شادیانے بجاتا ہوا چھید ہوئے سروں کو آگے آگے لئے ہوئے روانہ ہوا۔ ان سروں کے حلقے میں اہل بیت کی خواتین بھی تھیں جنہیں اونٹوں پر سوار کیا گیاتھا۔ قافلۂ مظلوم کا کوفہ میں ورود اور اہل کوفہ کا ماتم وشیون ۱۲/ محرم کو یہ قافلہ کوفہ میں پہنچا۔ کوفہ کے لوگ اس جلوس کو دیکھنے کے لئے سڑکوں ، چھتوں اور گلیوں پر جمع ہوگئے اور شہدا کے سروں کو نیزوں پردیکھ کر اس طرح رونا پیٹنا شروع کردیا ۔یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خطوط بھیج کر خدا کے واسطے دے کر اپنی اطاعت کا یقین دلا کر سیدناحسین رضی اللہ عنہ کو بلایا اور جب آپ پہنچ گئے تو روپے پیسے کے لالچ میں آکر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت سے منحرف ہوگئے اور ابن زیاد کی فوج میں شامل ہوگئے اور خاندانِ نبوت کا خاتمہ کردیا۔یہ وہی بزدل اور بے وفا کوفی تھیجو خود چین وا طمینان سے اپنے گھروں میں بیٹھے رہے اور ان سے صرف ۱۰ فرسخ کے فاصلہ پر میدانِ کربلا میں چمنِ رسالت اپنے ہی کے فرزندں کے ہاتھوں پامال اور تباہ و برباد ہوا۔ آج جو حضرات ہر سال ماہِ محرم میں ماتم کرتے ہیں ، یہ انہی کوفیوں کے ماتم کی نقل ہے۔ جنہوں نے اپنی شقاوت و ظلم کے خونیں داغ دھونے کے لئے پیٹنا شروع کردیا تھا۔ ابن زیاد کا دربار ابن زیاد نے اظہارِ مسرت کے طور پر ایک دربار منعقد کیا۔ تمام قیدی سامنے کھڑے کردیے گئے اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر ایک طشت میں رکھ کر اس کے سامنے لایا گیا۔ اس بدبخت نے دندان مبارک پر قمچی مار مار کر کہنا شروع کیا: کیا یہی وہ منہ ہے جس سے تم نے خلافت کا دعویٰ کیا تھا؟ اس وقت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ضبط نہ ہوسکا، کھڑے ہو کر فرمایا: بے ادب، گستاخ! |