ملاے اعلیٰ میں ایک شور برپا تھا، جنت کی تزئیں و آرائش کی جارہی تھی کہ جوانانِ جنت کا سردار آنے والا ہے۔ آپ نے وفورِ انتشار حواس میں کروٹ بدلی اور آنکھ کھول کر دیکھا تو نمازِ عصر کا وقت تھا۔ فوراً سرسجدے میں جھک گیا اور نمازِ عصر ادا کی۔ اس کے بعد شمر نے حکم دیا کہ سرکاٹ لو۔ مگر اس وقت بھی آپ رضی اللہ عنہ کے چہرہ پررعب و جلال کی یہ کیفیت تھی کہ کسی کو سرکاٹنے کی جراء ت نہ ہوئی۔ شیث بن ربیع آگے بڑھا مگر اس پر بھی ہیبت و رعب طاری ہوگیا، اس کے بعد سنان بن انس آگے بڑھا، اس کی بھی یہی حالت ہوئی۔ آخر شمر دوڑ کر آپ کے سینہ اطہر پر سوار ہوگیا اور جسم اوندھا کرکے سرتن سے جدا کردیا۔ دنیا نے شقاوت، ظلم اور بربریت کے بہت سے مناظر دیکھے ہوں گے، لیکن ایسا خوفناک سانحہ نہ دیکھا اور نہ دیکھے گی۔ إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون! سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا جسد ِمبارک ابن زیاد نے عمرو بن سعد کو حکم دیا تھا کہ حسین رضی اللہ عنہ کی لاش کو گھوڑوں کے ٹاپوں سے روند ڈالے۔ اب یہ تقدیر بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بدنِ مبارک پر پوری ہوئی۔ دس سواروں نے گھوڑے دوڑا کر آپ کے جسم اطہر کو روند ڈالا۔ آہ! یہ وہ جسم مبارک تھا جس کو پیغمبر الٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کی پیاری بیٹی فاطمتہ الزہرا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اُٹھائے اُٹھائے پھرتے۔ یہی وہ جسم تھا، جس کو سرورِکائنات کی پشت ِمبارک اور کندھوں پر سواری کا شرف نصیب ہوا۔ یہی جسم زخموں سے چور، خون میں شرابور، میدانِ کربلا میں گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندا جارہا ہے۔ فاعتبروا یا أولي الابصار! اس جنگ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ۷۲ اور کوفیوں کے ۸۸ آدمی مقتول ہوئے۔ اس شقاوت اور قساوت کے مظاہرے کے بعد کوفیوں نے وحشت اور بربریت کا اس طرح مظاہرہ کیاکہ پروگیانِ عفاف کے خیموں میں گھس کر لوٹ گھسوٹ شروع کردی۔ خواتین کے سروں سے چادریں اُتار لی گئیں ۔ غور کیجئے کہ اس بے کسی کے عالم میں ان نبی زادیوں کے قلوب کا کیا حال ہوگا۔ مگر یہ سب کچھ انہوں نے کمالِ صبر وتشکر سے برداشت کیا۔ شہداے کربلا کے سر نیزوں پر سلسلۂ حرب و ضرب اور جدال و قتال کے بعد عمرو بن سعد نے اپنی فوج کو آرام کرنے کا |