پانی پی چکا تو آپ رضی اللہ عنہ نے پینے کے لئے پانی چلو میں لیا اور چاہتے تھے کہ اس سے اپنا حلق تر کریں کہ یکایک ایک تیر سامنے سے آکر لب ہائے مبارک میں پیوست ہوگیا۔ آپ نے پانی ہاتھ سے پھینک دیا، تیر کھینچ کر نکالا اور منہ خون سے لبریز ہوگیا۔ آپ خون کی کلیاں کرتے ہوئے باہر نکلے اور فرمایا: ’’بارِ الٰہا! تو دیکھ رہا ہے کہ یہ لوگ تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے پرکیا کیا ظلم کررہے ہیں ۔‘‘ اتنے میں آوازآئی کہ ’’حسین رضی اللہ عنہ دور نکل گئے اور اہل بیت کی بھی خبر نہ رہی۔‘‘ یہ آواز سنتے ہی سرعت سے آپ خیموں کی طرف پلٹے۔ راستہ میں دشمنوں کے پَرے کے پَرے لگے کھڑے تھے۔ آپ اُنہیں چیرتے ہوئے خیموں میں پہنچ گئے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو مجروح اور خون میں شرابور دیکھ کر خیموں میں کہرام مچ گیا۔ آپ نے اُنہیں صبر کی تلقین کی اور باہر نکل آئے ایک تیر آپ کی پیشانی پر لگا جس سے سارا چہرہ مبارک لہولہان ہوگیا۔ چند لمحوں کے بعد ایک تیر سینہ اطہر میں آکر پیوست ہوگیا جس کے کھینچتے ہی ایک خون کا فوارہ جاری ہوگیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس خون کو اپنے چہرہ پر مل لیا اور فرمایا کہ اسی حالت میں اپنے جدامجد رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا۔ ’جنت کے نوجوانوں کے سردار‘ کی شہادت طاقت جواب دے چکی تھی، چاروں طرف سے تلواروں اور نیزوں کی بارش ہورہی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ گھوڑے پر نہ سنبھل سکے ۔ تپتی ہوئی ریت پرگر پڑے۔ دشمن اگر چاہتا تو آپ رضی اللہ عنہ کو اس سے بہت پہلے شہید کردیتا مگر کوئی شخص نبیرۂ رسول کا خون اپنے ذمہ نہیں لینا چاہتا تھا۔ اب شمر بن ذی الجوشن چلایا اور زرعہ ابن شریک تمیمی نے آگے بڑھ کر آپ کے دائیں ہاتھ کو زخمی کیا پھر شانہ پر تلوار ماری۔ آپ ضعف سے لڑکھڑائے تو سنان بن انس نخنی نے آگے بڑھ کر نیزہ مارا اور آپ بے ہوش ہوکر گرپڑے۔ آپ کے لئے جنت الفردوس کے تمام دروازے کھل چکے تھے۔ حورانِ فردوس آپ کو فردوس کے جھونکوں سے جھانک رہی تھیں ۔ حاملانِ عرش آپ کی آمد کے منتظر تھے۔ صالحین، صدیقین اور انبیاے علیہم السلام کی روحیں استقبالِ نواسۂ سرورِانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تیار تھیں ۔ |