Maktaba Wahhabi

59 - 79
اللھم ھوِّن علی ما نَزَل بہ إنہ لایکون أھون علیک من قتل ناقۃِ صالح ’یا اللہ! جومصیبت اس وقت اس پرنازل ہے، اس کو تو آسان کر۔ مجھے اُمید ہے کہ اس معصوم بچے کا خون تیرے نزدیک حضرت صالح کی اونٹنی سے کم نہیں ہوگا۔‘‘ نواسہ ٔ رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بے مثال صبر و استقلال جب اہل بیت ایک ایک کرکے شہید ہوئے تو حضرت سید ِشہدا کی باری آئی اور دشمن کی تلواریں نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر پر ٹوٹ پڑیں ۔ آپ نے نہایت صبرو استقامت سے دشمنوں کے حملوں کا مقابلہ کیا۔ بے شمار دشمنوں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔ تن تنہا ہزاروں کا مقابلہ کررہے تھے۔ شدتِ پیاس سے زبان سوکھ کر کانٹا ہوچکی تھی، تین روز سے پانی کی ایک بوند لبوں تک نہ پہنچی تھی، اوپر سے جھلسا دینے والی دھوپ، نیچے سے تپتی ہوئی ریت، عرب کی گرمی موسم کی سختی اور بادِ سموم کا زور۔ ریت کے ذرّوں کی پرواز جو چنگاریاں بن کر جسم سے لپٹتے تھے۔ حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ (فاتح ایران) کا بدنہاد بیٹا حکومت کے لالچ سے اندھا ہوکر اَب خاندانِ رسالت کے آخری چراغ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شمع حیات کوبھی بجھانے کیلئے بے تاب نظر آرہا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے جسم اطہر میں تیروں ، تلواروں اور نیزوں کے ۸۰ زخم پڑچکے تھے۔ تمام بدن چھلنی بنا ہوا تھا مگر آپ رضی اللہ عنہ پھر بھی نہایت شجاعت اور ثابت قدمی سے دشمن کا مقابلہ کررہے تھے۔ شمر بن ذی الجوشن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پامردی اور استقامت دیکھ کر بہت حیران و سراسیمہ ہوگیا اور اس نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی توجہ میدانِ جنگ سے ہٹانے کیلئے یہ چال چلی کہ فوج سے ایک دستہ علیحدہ کرکے اہل بیت کے خیموں کا محاصرہ کرلیا، اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے جھلا کر فرمایا: ’’اے لوگو شرم کرو! تمہاری لڑائی مجھ سے ہے یا بے کس و بے قصور عورتوں سے ۔کم بختو! کم از کم میری زندگی میں تو اپنے گھوڑوں کی باگیں اِدھر نہ بڑھاؤ۔‘‘ شمر نابکار نے شرمندہ ہوکر خیمہ اہل بیت سے محاصرہ اُٹھا لیا اور حکم دیا کہ آخری ہلہ بول دو۔ آخر پوری کی پوری فوج درندوں کی طرح سیدنا حسین رضی اللہ عنہ پرٹوٹ پڑی۔ آپ رضی اللہ عنہ صفوں کو چیرتے ہوئے فرات پر پہنچ گئے اور یہ کہہ کر گھوڑے کو دریا میں ڈال دیا کہ میں بھی پیاسا ہوں اور تو بھی پیاسا ہے ۔ جب تک تو اپنی پیاس نہ بجھائے گا، میں پانی کو ہاتھ نہ لگاؤں گا۔ گھوڑا
Flag Counter