Maktaba Wahhabi

58 - 79
اہل بیت کو صبر کی تلقین سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے سب رفقا یکے بعد دیگرے شہید ہوچکے تو بنی ہاشم خاندانِ نبوت کی باری آئی۔ سب سے پہلے علی اکبر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے علی اکبر رضی اللہ عنہ کی لاش اُٹھائی اور خیمہ کے پاس رکھ دی۔ اس کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ میدانِ جنگ سے قاسم بن حسن رضی اللہ عنہ کی لاش اُٹھا کر خیمہ کے پاس لائے اور علی اکبر رضی اللہ عنہ کی میت کے پہلو میں لٹا دیا۔ اہل بیت کے رونے کی آواز آپ کو سنائی دی تو آپ نے اہل بیت کو مخاطب کرکے فرمایا: صبرًا یا أہل بیتي صبرًا یا بني عمومي لأریتم ھوانًا بعد ذلک ’’ اے اہل بیت! صبر کرو۔ اے میرے چچا کی اولاد! صبر کرو۔ اس کے بعد کوئی تکلیف نہ دیکھو گے۔‘‘ جس وقت عبداللہ بن حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے چچا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ پر دشمن کو وار کرتے دیکھا تو اُس پیکر وفا نے لپک کر اپنے ہاتھ پر تلوار کے وار کو روکا، اس کا دایاں بازو شانے سے کٹ کر جدا ہوگیا۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے نوجوان بھتیجے کو چھاتی سے لگایا اور فرمایا: اصبر علی ما نزل بک واحتسب في ذلک الخیر فإن ﷲ تعالیٰ یُلحقک بابائک الصّٰلحین ’’اے بھتیجے! جو مصیبت اس وقت تم پر آئی ہے، اس پر صبر کرو اور ثواب کے اُمیدوار رہو۔ بہت جلد خدا تجھے تیرے صالح باپ دادا سے ملا دے گا۔‘‘ ایک شیرخوار بچے کی شہادت اس کے بعد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا صاحبزادہ علی اصغر رحمہ اللہ جب شدتِ پیاس سے تڑپنے لگا تو آپ اس کو گود میں اُٹھا کر لائے اور دشمنوں کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’تمہیں مجھ سے تو عداوت ہوسکتی ہے، لیکن اس معصوم بچے کے ساتھ تمہیں کیا دشمنی ہے؟ اس کو تو پانی دو کہ شدتِ پیاس سے دم توڑ رہا ہے۔‘‘ اس کے جواب میں دشمن کی طرف سے ایک تیر آیا جو اس بچے کے حلق میں پیوست ہوگیا اور وہ معصوم وہیں جاں بحق ہوگیا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اس قدر ہوشربا سانحہ پر بھی کمالِ صبر وسکون کا مظاہرہ کیا یعنی اس کے خون سے چلو بھر کر آسمان کی طرف پھینکا اور فرمایا:
Flag Counter