قرآن میں کئی مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کا حکم موجود ہے۔جو حدیث ہی کی پیروی کا دوسرا نام ہے: 1. ایک مقام پر ارشاد ہوا کہ ﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوْا اﷲَ وَ اَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَلاَ تُبْطِلُوْآ اَعْمَالَکُمْ﴾ ( محمد: ۳۳) ’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور ان (دونوں کی نافرمانی کرکے) اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔‘‘ 2. دوسرے مقام پر فرمایا گیا: ﴿وَمَآ اٰتٰــکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہٗ وَمَا نَھٰـــکُمْ عَنْہٗ فَانْتَھُوْا﴾ (الحشر :۷) ’’رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے روکے اُس سے رُک جاؤ۔‘‘ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فرمان کو واجب الاطاعت قرار دیتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر صحیح حدیث کو ماننا اور اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ 3. بلکہ یہاں تک فرما دیا گیا کہ جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرلی تو اُس نے اللہ کی اطاعت کرلی: ﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲَ﴾ (النساء :۸۰) ’’جو شخص رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرلے، اُس نے اللہ کی اطاعت کرلی۔‘‘ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ چونکہ غامدی صاحب کے نزدیک : 1. حدیث صرف اخبارِ آحاد کا نام ہے اور اس میں اخبارِ متواترہ شامل نہیں ۔ 2. حدیث اور دین دو الگ الگ چیزیں ہیں اور حدیث کا دین سے کوئی تعلق نہیں ۔ 3. کسی حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔ 4. کسی حدیث سے دین کا کوئی عمل اور حکم ثابت نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہماری رائے میں غامدی صاحب اپنے مذکورہ بالا نظریات رکھنے کی بنا پر ’منکرحدیث‘ قرار پاتے ہیں اور ان کا شمار منکرین حدیث میں ہوجاتا ہے، کیونکہ حدیث کے بارے میں اُن کے یہ خیالات اُمت کے اُن مسلمہ عقائد و اعمال کے بالکل خلاف ہیں جن کی تفصیل گذشتہ صفحات میں بیان کی جاچکی ہے۔ (جاری ہے) |