Maktaba Wahhabi

73 - 80
یورپ وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ 3. خاندانی نظام کی تباہی: جب مرد و عورت دونوں کو قانونی طور پر زنا کی سہولتیں حاصل ہوجائیں گی تو اسی طرح خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا جیسے مغرب میں یہ نظام تباہ ہوچکا ہے۔ مغرب امداد اوراصلاح کے نام سے پاکستان کے اسلامی معاشرے کو بھی مادر پدر آزاد معاشرے میں تبدیل کرناچاہتا ہے جس سے خاندانی نظام بربادی کا شکار ہوجائے گا۔ 4. بن بیاہی (کنواری) ماؤں کاطوفان:سولہ سال تک کی بچی زنا بالجبر کی سزا سے مستثنیٰ ہوگی تو اس کا مقصد بھی پاکیزہ معاشرے کے بجائے ایسے معاشرے کو معرضِ وجود میں لانا ہے جس میں بلوغت کے ساتھ ہی جنسی مخالطت کا نہ صرف آغاز ہوجائے بلکہ اس کی ترغیب وترویج کا بھی اہتمام ہوجیسے مغرب اور انگلستان وغیرہ میں ہے۔ وہاں سولہ سال سے کم عمر کی بیشتر لڑکیاں اپنی رضا مندی سے جنسی بدفعلی کی مرتکب ہوتی ہیں جیسے کہ لاس اینجلس ٹائمز کی ۴ مارچ ۲۰۰۵ء کی رپورٹ میں اسی شہر کے چھٹی کلاس کے طلبا و طالبات کا ایک سروے شائع کیاگیا ہے، اس میں بتلایا گیاہے کہ ۷۰ فیصد بچے جنسی بے راہ روی کے مرتکب پائے گئے ہیں ، ایسے ہی آئے روز سکولوں کی طالبات کے حاملہ ہونے کی خبریں وہاں کا معمول ہیں ۔ (بحوالہ ماہنامہ’محدث‘ اگست ۲۰۰۶ء) اس طرح وہاں بن بیاہی (کنواری) ماؤں کا ایک طوفان آیا ہوا ہے جس کا تناسب کسی جگہ ۶۰ فیصد اور کسی جگہ ۵۰فیصد اور کسی جگہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ نئے قانون کے سربستہ رازکھلنے کی دیرہے! ابھی تو اکثر عوام کو پتہ نہیں ہے کہ یہ نیا قانون کیاہے؟ اور زنا کاروں کو اس میں کیسی کیسی سہولتیں دی گئی ہیں اور سزا کے عمل کو کس طرح اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ کسی کو سزا ملنا ہی نہایت مشکل ہے، لیکن جب آہستہ آہستہ اس قانون کی پرتیں کھلیں گی، اس کے سربستہ اسرار واضح ہوں گے اور وکیلوں کی قانونی موشگافیاں مجرموں کی ہم نوائی اور ان کی حوصلہ افزائی کریں گی تو پھر دیکھنا کہ مغربی آقاؤں کی امیدیں کس طرح برآتی ہیں اور ہمارا معاشرہ بدکاری کی راہ پر کس طرح بگٹٹ دوڑتا ہے۔ لا قدّرھا اللّٰه ثم لا قدّرھا ﷲ
Flag Counter