Maktaba Wahhabi

72 - 80
ہے۔ معاشرے کی ذلت و رسوائی کا خوف کنڈوم اور اس طرح کی دیگر مانع حمل ادویات نے ختم کردیا ہے جو بدکاری کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ ہے۔ تیسرے نمبر پرسخت سزاؤں کاخوف ہے جو مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں کو جرائم سے باز رکھتا ہے۔ حدود آرڈیننس اگرچہ عملی طور پر غیر مؤثر تھا، لیکن اس میں درج سخت سزاؤں (کوڑے اور سنگساری) کا خوف ہی مجرمین کی حوصلہ شکنی کے لئے بڑا اہم اور نہایت مؤثر تھا۔ زیر بحث قانون میں زنا کی وہ اصل سزائیں جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں اور چودہ سوسال سے بالاتفاق مسلّمہ چلی آرہی ہیں ، علاوہ ازیں وہ نہایت عبرتناک ہیں ؛ اُنہیں یک قلم ختم کرکے آسان سی سزائیں تجویز کی گئیں ہیں اور وہ ہیں : زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید اور دس ہزارروپے تک کا جرمانہ۔ اسی طرح قذف کی قرآنی سزا ۸۰ کوڑے ختم کرکے اس کے لئے بھی مذکورہ سزا (پانچ سال تک قید اور دس ہزار روپے تک جرمانہ) ہی تجویز کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں یہ سزا بھی زنابالرضا کی ہے، زنا بالجبر کی نہیں ۔ حالانکہ اسلام میں سرے سے یہ تقسیم ہی نہیں ہے۔ ستم بالاے ستم مبادیاتِ زنا، اقدامِ زنا، سرعام فحاشی، بوس و کنار وغیرہ جرائم کی سزائیں جو حدود آرڈیننس میں تھیں ، ان کو یکسر ختم کرکے ان تمام بے حیائیوں کا دروازہ چوپٹ کھول دیا گیاہے۔ شریعت میں زنا کی اصل سزا کیاہے؟ وہ ہے شادی شدہ زانیوں کے لئے سنگساری اور کنورے زانیوں کے لئے سو کوڑے۔ اس کے علاوہ اس میں رضا مندی یا جبر کے حساب سے کوئی تفریق بھی نہیں ۔ البتہ عورت، جبر کی صورت میں سزا سے مستثنیٰ ہوگی، صرف مرد سزا یاب ہوگا، لیکن زیربحث قانون میں ایک تو زنا کو مغربی معاشرے کی طرح دوقسموں (بالرضا اور بالجبر) میں تقسیم کردیاگیاہے، دوسرے نمبر پراس کی اصل سزا جونہایت عبرتناک تھی، اسے ختم کردیاگیا ہے۔ تیسرے نمبر پر اس کا طریق کار بھی دنیا سے ایسا نرالا اور انوکھا تجویز کیا گیاہے کہ کسی کو سزا ملنا ہی کارے دار د ہوگا۔ چوتھے نمبر پر سزا ملی بھی تو برائے نام ہوگی جس سے کسی کو بھی عبرت نہیں مل سکتی بلکہ مجرمین کی حوصلہ افزائی ہی ہوگی۔ 2. بدکاری کی بہتات: مجرمین کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں اخلاقی جرائم عام ہوں گے اور زنا کی اصل سزا ختم کرنے سے زنا کاری کی لعنت و باے عام کی صورت اختیارکرلے گی جس کی نظیر
Flag Counter